اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر  ۸۷

۵۳:۲      وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ قَفَّیۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ بِالرُّسُلِ ۫ وَ اٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُکُمُ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ۚ فَفَرِیۡقًا کَذَّبۡتُمۡ ۫ وَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ ﴿۸۷﴾

۱:۵۳:۲      اللغۃ

[وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ] اس جملے کے تمام کلمات پہلے زیر بحث آچکے ہیں بلکہ پورا جملہ ’’ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ ‘‘ اس سے پہلے البقرہ: ۵۳ [۱:۳۳:۲] میں گزر چکا ہے البتہ وہاں اس سے پہلے ’’وَاِذْ‘‘ (اور جب) تھا، جب کہ یہاں شروع میں ’’وَلَقَدْ‘‘(اور بے شک/ البتہ/ تحقیق) ہے۔ یہاں ہم ان کلمات کا ترجمہ اور ساتھ تشریح کے لیے گزشتہ حوالہ لکھنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔

(۱)  ’’وَ‘‘(اور) متعدد دفعہ گزرا ہے پہلی دفعہ اس پر بات الفاتحہ:۵ [۱:۴:۱ (۳)] میں ہوئی تھی۔ نیز دیکھیے، البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۱)] بھی۔

(۲) ’’لَقَدْ‘‘ جو در اصل لام تاکید (لَ) اور حرفِ تحقیق (قَدْ) کا مجموعہ ہے ۔ اس کے لام تاکید کی وضاحت البقرہ:۶۴ [۱:۴۱:۲ (۶)]میں اور ’’قَدْ‘‘کے استعمال اور معنی کی وضاحت البقرہ:۶۰ [۱:۳۸:۲ (۸)] میں دیکھئے۔

(۳) ’’آتَیْنَا‘‘ جس کا مادہ ’’ا ت ی‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلْنَا‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد پر ۱:۱۷:۲ (۴) میں بات ہوئی تھی اور اس سے بابِ افعال کے فعل آتیٰ یُؤتِی اِیتَاءً (دینا)[جس سے یہ ’’آتینا‘‘ فعل ماضی صیغہ متکلم ہے۔ یعنی ’’ہم نے دیا‘‘]پر مفصل بات البقرہ:۴۳ [۱:۲۹:۲ (۳)] میں کلمہ ’’آتُوا‘‘کے ضمن میں ہوئی تھی۔

(۴) ’’موسٰی ‘‘ جو ایک جلیل القدر پیغمبر کا نام ہے چاہیں تو اس کی لغوی تشریح اور اس کی اصل کے بارے میں البقرہ:۵۱ [۱:۳۳:۲ (۲)] دیکھ لیجئے۔

(۵) ’’الکتب‘‘ (جو ’’ ک ت ب‘‘ مادہ سے بروزن ’’فِعَال‘‘ ہے) کی پوری لغوی تشریح پہلی دفعہ البقرہ: ۲ [۱:۱:۲ (۲)] میں ہوئی تھی۔

اس طرح زیر مطالعہ جملہ ’’ وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوْسَی الْکِتابَ ‘‘ (اس کے کلمات کے رسم و ضبط پر آگے بات ہوگی۔ یہاں فرق سمجھانے کے لیے اسے عام املائی رسم و ضبط کے ساتھ لکھا گیا ہے) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور بے شک ہم نے دی موسٰیؑ کو کتاب‘‘۔ جس کے ’’لقَدْ‘‘ کا ترجمہ بعض نے حرف تاکید (البتہ) سے کیا ہے اور بعض نے اردو محاورے کی خاطر اس کا ترجمہ نظر انداز کردیا ہے۔ اسی طرح ’’آتینا‘‘ کا ترجمہ احتراماً ’’ہم نے عطا کی/عنایت کی/ فرمائی‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے اور بعض نے لفظ ’’ کتاب‘‘ کے ساتھ (توریت) کا تفسیری اضافہ کردیا ہے۔

۱:۵۳:۲ (۱)      [وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ] اس عبارت میں نئے (پہلی دفعہ آنے والے) لفظ ’’قَفَّیْنَا‘‘ اور ’’الرسل‘‘ ہیں۔

[نوٹ: آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ شروع میں ہم ہر ایک لفظ (حرف ہو یا اسم یا فعل) کی الگ الگ (ایک ایک کی) تشریح (لغوی) کرتے تھے۔ اگرچہ اس میں بھی مرکبات (مثلاً جاری یا اضافی) کو اکٹھا ہی بیان کرنا پڑتا تھا۔ پھر جب کلمات کی تکرار ہونے لگی یعنی دوبارہ وہی لفظ یا اس مادہ سے ماخوذ لفظ آنے لگے تو ہم ان کے ساتھ اضافی حوالہ کے ارقام (نمبر) نہیں دیتے، کیونکہ اس طرح حوالے کے ارقام بہت زیادہ ہوسکتے تھے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں