اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

۱:۲۹:۲(۳)     [وَاٰتُوْا] میں ابتدائی واوِ عاطفہ کے بعد والے کلمہ ’’اٰتُوْا‘‘ کا مادہ ’’ا ت وی‘‘اور وزن اصلی ’’اَفْعِلُوْا‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’أَأْتِیُوْا‘‘تھی۔ اس کے ابتدائی حصے میں تو ایک متحرک اور ایک ساکن ہمزہ کے جمع ہونے کی بنا پر ’’أَأْآ ‘‘بن گیا( اس کے قرآنی ضبط پر آگے بات ہوگی) ــ اور اس (اَتِیُوْا) کا آخری حصہ (تِیُوا)ناقص کے واو الجمع والے قاعدے کے مطابق ’’تُوا‘‘میں بدل جاتا ہے اور یوں یہ لفظ ’’آتُوا‘‘بنتا ہے۔ اس مادہ (ا ت ی) سے فعل مجرد (اتی یأتی اتیانًا = آنا)کے باب معنی اور استعمال پر البقرہ ۲۳ [۱:۱۷:۲(۴)]میں بات ہوئی تھی۔

  • زیر مطالعہ کلمہ (آتُوْا)اس مادہ سے بابِ افعال کا فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ بابِ افعال سے اس فعل آتی…یُؤتِیْ ایتائً [1] (دراصل أَأْتَیَ یُؤْتِیُ اِئْتایًا‘‘)کے بنیادی معنی ہیں:’’…کو…دینا‘‘ـ ــ یعنی عموماً اس کے دو مفعول اور دونوں براہ راست (بنفسہ) آتے ہیں۔ (۱) جس کو دیا جائے اور (۲) جو چیز دی جائے جیسے ’’ وَاٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْك ‘‘(البقرہ:۲۵۱) یعنی ’’اللہ نے اس کو حکومت دی۔‘‘  بعض دفعہ اس کا ایک مفعول محذوف ہوتا ہے پھر اس کی بھی دو صورتیں ہیں (۱) زیادہ تر تو پہلا مفعول (جس کو دیا جائے)محذوف ہوتا ہے۔ اس کی قرآن کریم میں تیس (۳۰)سے زیادہ مثالیں موجود ہیں۔ (۲) اور بعض دفعہ دوسرا مفعول (جو چیز دی جائے)محذوف (غیر مذکور)ہوتا ہے۔ اس کی صرف ایک مثال قرآن کریم میں (النور:۲۲)میں آئی ہے۔
  • کبھی اس فعل (اَتَی یُوْتِی) کے معنی موقع کے لحاظ سے ’’لانا۔ لے آنا‘‘بھی ہوتے ہیں جو دراصل ’’دنیا‘‘ ہی کی ایک صورت ہے مثلاً کہتے ہیں ’’آتی زیدًا طعاماً‘‘(وہ زید کے سامنے کھانا لایا) اور قرآن کریم میں ہے ’’ اٰتِنَا غَدَاۗءَنَا ‘‘ (الکہف: ۶۲) جب اس فعل کا مفعول (ثانی) ’’زکوۃ‘‘ یا کوئی واجب شرعی ہو تو اس کا ترجمہ ’’ادا کرنا‘‘سے بھی ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم میں بابِ افعال کے اس فعل (اَتی یوْتی)سے اَفعال اور اسماء مشتقہ کے مختلف صیغے ۲۷۵ کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔
  • یہاں اس (آتوا)کا ترجمہ ’’دو‘‘ کے علاوہ ’’دیا کرو‘‘ اور ’’دیتے رہو‘‘ سے بھی کیا گیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے یعنی اس میں کئی بار یا بار بار (ہر سال) زکوٰۃ ادا کرنے کا مفہوم ہے۔ جس کا ثبوت سنت سے ملتا ہے۔

۱:۲۹:۲(۴)     [الزَّکوٰۃَ] کا مادہ ’’زک و‘‘ اور بقول بعض [2] ’’زک ی‘‘ہے اور وزن اصلی (لام تعریف نکال کر) ’’فَعَلَۃٌ‘‘ہے (جو یہاں منصوب ہے) گویا اس لفظ کی اصلی شکل ’’زَکَوَۃٌ  یا  زَکَیَۃٌ‘‘تھی جس میں ’’واو  یا   یاء‘‘ ماقبل مفتوح الف میں بدل جاتی ہے اور یوں یہ لفظ ’’ زکاۃ‘‘بنتا ہے جس کی قرآنی املاء (رسم عثمانی) ’’زکوٰۃ‘‘ ہے۔ جو ایک طرح سے اس بات پر دلیل بھی ہے کہ اس کا مادہ واویٔ اللام ہے جس میں الف میں بدلنے والی ’’واو‘‘ کو لکھنے میں برقرار رکھا گیا ہے۔ اگرچہ اسے پڑھا ’’الف‘‘ہی جاتا ہے۔ لفظ ’’صلوۃ‘‘کے بارے میں بھی یہی بات آپ پڑھ آئے ہیں۔[دیکھئے ۱:۲:۲(۴)]

_____________________________

[1]   اس مادہ سے باب مفاعلہ کا فعل ’’آتی یؤاتی مُؤاتاۃً‘‘ بھی عربی میں ’’موافقت کرنا‘‘کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’آتی فلاناً علی الامر‘‘(اس نے فلاں کے ساتھ معاملے میں موافقت کی) تاہم یہ استعمال قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔ صرف ’’آتی‘‘ کی مشابہت کے باعث ہم نے اس کا ذکر کیا ہے۔ باب افعال والا ’’آتی‘‘اَفْعَلَ سےہے اور باب مفاعلہ والا ’’آتی‘‘ دراصل ’’فَاعَلَ‘‘ہوتا ہے۔

[2]   مثلاً الفیروز آبادی (القاموس المحیط)

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں