اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • قرآن کریم میں اس مادہ (عَبَدَ)سے مشتق افعال و اسماء دو سو سے زائد مقامات پر آئے ہیں اور خود لفظ ’’عِبادَۃ‘‘ آٹھ جگہ آیا ہے۔ ان مختلف استعمالات سے ہی لفظ ’’عبادۃ‘‘ کے معنی متعین ہوتے ہیں اور اس کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔

۱:۴:۱ (۳)     (و) حرف ’’واؤ‘‘ بھی عربی زبان میں متعدد و معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً (۱) ’’اور‘‘ اس وقت اسے ’’واو عاطفہ‘‘ یا  ’’واو العطف ‘‘کہتے ہیں۔ (۲)’’ ـ کی قسم ہے‘‘ اس وقت اسے ’’واو‘‘ قسمیہ‘‘  یا  ’’واوالقسم‘‘ کہتے ہیں (۲) ’’اس حالت میں کہ ‘‘ یا ’’درانحالیکہ‘‘ ـــ  تب اسے ’’واوحالیہ‘‘ یا واو الحال کہتے ہیں۔ (۴) ’’ـ  کے ساتھ ساتھ‘‘ ان معنوں کے لئے یہ ’’واو المعیت‘‘ کہلاتی ہے۔

  • واو (’’وَ‘‘) کے ان مختلف (بلکہ ان کے علاوہ بھی) استعمالات کے مقرر قواعد ہیں جو کتبِ نحو میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں (آیت زیر مطالعہ میں) یہ واوالعطف ہے یعنی اس کے معنی ہیں ’’اَوْر‘‘ ـــ آئندہ ’’وَ‘‘ کے کوئی معنی بیان ہوں گے تو صرف اردو معنی لکھنے کی بجائے ہم ساتھ اصطلاحی طریقے پر ’’واو‘‘ کا متعلقہ نام لکھ دیا کریں گے۔ مثلاً ’’واوا العطف‘‘ ہے یا ’’واو حالیہ‘‘ ہے وغیرہ۔

[اِیّاکَ]  پر ابھی پوری بحث ہوچکی ہے۔

۱:۴:۱  (۴)     [نَسْتَعِيْنُ] کا مادہ ’’ع و ن‘‘ او روزن اصلی ’’نَسْتَفْعِلُ‘‘ ہے۔ اور اس کی شکل اصلی ’’ نَسْتَعْوِنُ‘‘ ہے۔ جس میں اہل زبان یعنی عرب ’’واو‘‘ کی حرکت (کسرہ) ماقبل ساکن حرف (ع) کو دے کر اسے (واو ۔کو) موافقِ حرکت (کسرہ) حرف یعنی ’’یاء‘‘ میں بدل کر بولتے ہیں جسے ہم صرف کی زبان میں ’’تعلیل ‘‘ کہتے ہیں۔[1]   اس طرح اب اس کی مستعمل شکل کا وزن ’’نَسْتَفِیلُ‘‘ رہ گیا ہے ۔[2]

  • اس مادہ (ع و ن) سے فعل ثلاثی مجرد باب نصر سے (عَاَنَ یَعُونُ عَونًا یعنی عَاذَ یَعُوْذ کی طرح) بمعنی ’’گائے کا درمیانی عمر کو پہنچنا‘‘ لازم اور بغیر صلہ کے آتا ہے۔ مگر قرآن کریم میں یہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس کے معنوں سے ایک لفظ ’’عَوَان‘‘ (البقرۃ:۶۸) آیا ہے۔ جس کی وضاحت اپنے موقع پر آئے گی۔
  • ’’ نَسْتَعِيْنُ ‘‘ مادہ ’’عون‘‘ سے باب استفعال کا فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ [جو مذکر مؤنث دونوں کے لئے آتا ہے۔ گویا اس اقرار میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں اگرچہ اردو میں ترجمہ جمع مذکر سے ہی کیا جاتا ہے]

اِستَعَان۔۔۔ یَسْتَعِیْنُ اِسْتِعَانَۃً (جس کی اصلی شکل   اِسْتَعْوَن یَسْتَعْوِنُ اِسْتِعْوَانًا تھی) ہمیشہ فعل متعدی کی صورت میں آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں:۔۔ سے مدد چاہنا، ۔۔۔ مدد مانگنا، … سے اعانت طلب کرنا وغیرہ۔ اکثر تو یہ فعل بغیر صلہ کے (مفعول بنفسہٖ کے ساتھ) اور کبھی ’’باء‘‘ (بِ) کے صلہ کے ساتھ بھی آتا ہے ۔ [یعنی ’’اِستَعَا نہُ  ‘‘ اور ’’اِستَعَان بہٖ‘‘ ہر دو کا مطلب ہے، اس نے اس سے مدد مانگی]۔ قرآن کریم میں یہ فعل دونوں طرح (صلہ کے ساتھ اور اس کے بغیر بھی ) استعمال ہوا ہے۔

            اس مادہ (عون) کے استفعال کے علاوہ بعض دیگر مزید فیہ کے ابواب مثل افعال، اور تفاعل سے بھی مشتقات (افعال و اسماء) کے دس کے قریب صیغے قرآن کریم میں آئے ہیں۔

_______________________________

[1]   ہم نے یہاں اس کلمہ (نَسْتَعِيْنُ میں واقع ہونے والی ’’تعلیل صرفی‘‘ کی طرف مختصراً  اشارہ کر دیا ہے۔ آئندہ بھی اس قسم کا کوئی کلمہ جب پہلی دفعہ سامنے آئے گا تو ’’صرفی تبدیلی‘‘ (مثلاً تخفیف‘ ادغام یا تعلیل) کی طرف اسی طرح اشارہ کر دیا جائے گا۔ اگرچہ ہم اس مفروضہ پر چل رہے ہیں کہ ہمارا قاری نحو اور صرف کے ان مبادی سے واقف ہے جن کا ’’مقدمہ‘‘ میں ذکر کر دیا گیا ہے۔

[2]   عبدالحمید فراہیؒ کے طریقہ تدریس صرف میں صرف مستعمل شکل کا وزن ہی سکھایا اور بتایا جاتا ہے۔

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں