۱:۱:۲(۲) [الْكِتٰبُ] کا مادہ ’’ک ت ب‘‘ اور وزن ’’فِعالٌ ‘‘ہے (’’ال‘‘ کے بغیر)۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کتَبَ ۔۔۔یَکتُبُ کِتَابًا(باب نصر سے) آتا ہے۔اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’۔۔۔ لکھنا‘‘ پھر اس سے بعض محاورے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ فعل ہمیشہ متعدی اور عموماً بغیر صلہ کے (مفعول بنفسہٖ کے ساتھ) استعمال ہوتا ہے اور کبھی ’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ (زیادہ تر بمعنی ـــ پر لازم قرار دینا) بھی آتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ فعل زیادہ تر تو ثلاثی مجرد (معروف اور مجہول) آیا ہے اور مزید فیہ کا ایک آدھ صیغہ بھی آیا ہے جس کاذکر اپنے اپنے مقام پر آئے گا۔
- لفظ ’’ کتاب‘‘دراصل اس فعل کا ایک مصدر ہے مگر یہاں (آیت زیر مطالعہ میں) یہ مصدر بمعنی اسم المفعول (مکتوب) استعمال ہوا ہے۔ مصدر کا کبھی بطور اسم فاعل اور کبھی بطور اسم مفعول استعمال ہونا عربی زبان میں عام ہے۔ خود قرآن کریم میں اس کی متعدد مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔ (لفظ ’’ربّ‘‘ میں مصدر بطور اسم فاعل استعمال ہونے کی مثال آپ ابھی سورۃ الفاتحہ کے شروع میں دیکھ چکے ہیں۔۱:۲:۱(۳) میں ( یہ لفظ (کتاب) قرآن کریم میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ (مختلف صورتوں مثلاً معرفہ نکرہ، مفرد، مرکّب، جمع اور مختلف حالتوں - رفع نصب جر ـ میں یہ لفظ کل ۲۶۱ دفعہ وارد ہوا ہے)ـــ اور اس کے معنی بھی حسب موقع مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کتاب خصوصاً آسمانی کتاب۔ نو شتہ، تحریر، خط، نامہ ، تقدیر (الٰہی)، فرمان، حکم وغیرہ، ان سب معنوں میں ’’لکھنا‘‘ کا بنیادی مفہوم موجود ہوتا ہے۔
[لَارَیْبَ فِیْہِ]یہ دراصل چار کلمات ’’لا‘‘، ’’ریب‘‘، ’’ِفی‘‘ اور ’’ہ‘‘ پر مشتمل ہے۔ ہر ایک کی الگ الگ وضاحت کی جاتی ہے۔
۱:۱:۲(۳) ’’لَا‘‘ یہ نفی کاحرف ہے (یعنی اس میں ’’نہ‘‘، ’’نہیں‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے) اور یہ کئی طرح استعمال ہوتا ہے:
۱۔ کبھی یہ اپنے سے بعد والے لفظ (جسے اس کا اسم کہتے ہیں) کی پوری جنس کی نفی کے لئے آتا ہے۔ (جیسے یہاں آیت زیرِ مطالعہ میں ہے) اس وقت اسے لائے نفیٔ جنس (فارسی ترکیب) یا لا لنفی الجنس (عربی ترکیب) کہتے ہیں۔ اس کا اسم ایک فتحہ (ــــــَــــ) کے ساتھ نصب میں آتا ہے اور اس کاـــا اردو ترجمہ عموماً ’’کوئی۔۔۔۔ہی نہیں‘‘، یا ’’کسی قسم کا۔۔۔۔ہے ہی نہیں‘‘ یا ’’کوئی بھی۔۔۔۔نہیں‘‘ یا مختصراً ’’کوئی۔۔۔۔نہیں‘‘ سے کر لیتے ہیں۔ (ـــ خالی نقطوں والی جگہ ’’لا‘‘ کے اسم کے لئے ہے)۔
۲۔کبھی یہ (لا) ’’عاطفہ‘‘ ہو کر آتا ہے واو عاطفہ کے ساتھ بھی اور اس کے بغیر بھی ‘ اس صورت میں اس کا اردو ترجمہ ’’اور نہ ہی ـــ ‘‘ سے کیا جاتا ہے (اس کی ایک مثال آپ ’’وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ‘‘ میں دیکھ چکے ہیں)
۳۔ کبھی ’’لا‘‘ ’’لیس‘‘ کی طرح استعمال ہوتا ہے اس وقت اسے ’’لا مشابھۃ بِلَیْس‘‘ یا ’’لا الحجازیہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس صورت میں اس کا ترجمہ ’’ـــ نہیں ہے‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔
۴۔ کبھی یہ کسی سوال کے جواب میں انکار یا بے خبری ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے۔ اس کا ترجمہ صرف ’’نہیں‘‘ کرتے ہیں۔
۵۔ اسی طرح یہ ’’لا‘‘ افعال کے ساتھ مل کر نفی اور نہی (روک دینا) کے معنی پیدا کرتا ہے ـــوغیرہ ـــ ’’لا‘‘ کے ان مختلف استعمالات کے کچھ قواعد اور اصول ہیں جن کی تفصیل یا ’’یاد دھانی‘‘ کے لئے کسی ڈکشنری یا نحو کی کسی کتاب پر نظر ڈال لینا چاہئے۔ آگے چل کر ’’لا‘‘ کے مزید مواقع استعمال ہمارے سامنے آئیں گے۔ اُس وقت ہم ’’الاعراب‘‘ کی بحث میں اُس جگہ استعمال ہونے والے ’’لا‘‘ کے نحوی قاعدے کی طرف بھی اشارہ کر دیا کریں گے۔