اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرۃ آیت نمبر  ۵۱   تا   ۵۳

۳۳:۲     وَ اِذۡ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰۤی اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً ثُمَّ اتَّخَذۡتُمُ الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَ اَنۡتُمۡ ظٰلِمُوۡنَ ﴿۵۱﴾ثُمَّ عَفَوۡنَا عَنۡکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۵۲﴾وَ اِذۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ الۡفُرۡقَانَ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿۵۳﴾ 

۱:۳۳:۲       اللغۃ

[وَاِذْ] کے معنی و استعمال پر کئی دفعہ بات ہوچکی ہے مثلاً البقرہ:۳۰ [۱:۲۱:۲ (۱)]اور اوپر۱:۳۲:۲ کے شروع میں ’’اور جس وقت‘‘۔

[وَاعَدْنَا] کا مادہ ’’و ع د‘‘ اور وزن ’’فَاعَلْنَا‘‘ ہے (یہاں آسانی کے لیے ’’واعَدْنا‘‘ برسم املائی لکھا گیا ہے۔ رسم عثمانی پر آگے ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی) اس مادہ سے فعل مجرد وعَد. . . . .یَعِدْ وَعْدًا و مَوْ عِدۃً (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو ہیں: ’’. . . . . سے. . .کا وعدہ کرنا‘‘ (وعدہ خود اسی فعل سے ماخوذ ہے اور اُردو میں مستعمل ہے)۔  اس فعل کے عموماً دو مفعول آتے ہیں (۱) جس سے وعدہ کیا جائے اور (۲) جس چیز کا وعدہ کیا جائے۔ اور عموماً تو دونوں مفعول بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتے ہیں جیسے ’’ وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِيْرَةً ‘‘(الفتح:۲۰) ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا‘‘۔  بعض دفعہ دوسرے مفعول پر ’’ب‘‘ کا صلہ لگتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’وعَدفلانًا الامرَ وبالامرِ‘‘ (اس نے اس کو ’’اس بات‘‘ کا وعدہ دیا)۔ قرآن کریم میں یہ (صلے والا) استعمال کہیں نہیں آیا۔ بعض دفعہ دوسرا مفعول محذوف ہوتا ہے جو عبارت (سیاق و سباق) سے سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم اس (مفعول ثانی محذوف) کی صرف ایک مثال (النساء:۱۲۰) میں ہے۔ ’’وعَد یعد‘‘ اچھے بُرے دونوں طرح کے وعدہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اہل ایمان کے لیے ’’جناتٍ‘‘ اور کفار کے لیے ’’نارَ جھنم‘‘ کے لیے ’’وعَدَ‘‘ کا لفظ ہی آیا ہے۔ عام عربی میں کہتے ہیں: ’’وعدہ خیرًا /شرًا۔ یا۔  بخیربشر‘‘۔ (اس نے اس سے اچھا یا بُرا وعدہ کیا)

  • یہ فعل قرآن کریم میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ صرف فعل مجرد کے مختلف صیغے ۷۰ جگہ آئے ہیں۔ مزید فیہ کے باب مفاعلہ کے صیغے چار جگہ اور باب تفاعل سے صرف ایک صیغہ آیا ہے۔ اس کے علاوہ مجرد اور مزید فیہ سے مصادر اور اسماء مشتقہ ۷۵ مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
  • زیر مطالعہ لفظ ’’واعدنا‘‘ اس مادہ (وعد) سے باب مفاعلۃ کا فعل ماضی صیغہ جمع متکلم ہے۔ اس باب سے فعل ’’واعَد. . . .یواعِدُ مُوَاعدۃً‘‘ کے معنی ہیں ’’. . . .سے وعدہ کیا اور’’ . . . .نے بھی وعدہ کیا‘‘ یعنی ’’دو آدمیوں نے باہم ایک دوسرے سے وعدہ کیا‘‘۔ یہ معنی بابِ مفاعلہ میں عموماً خصوصیت مشارکت پائے جانے کی بناء پر ہیں۔ تاہم اس باب میں ہر جگہ ’’دو‘‘ یا ’’باہم‘‘ کا مفہوم ضروری نہیں مثلاً ’’سَافَر‘‘ (اس نے سفر کیا) یا عاقبَ (اس نے سزاد ی) وغیرہ میں باہم کا مفہوم نہیں ہے۔ اور عموماً اس فعل کے بھی دو مفعول آتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’واعدَہ الوقتَ اوالمکانَ (اس نے اس کو’’اس وقت‘‘ یا ’’اس جگہ‘‘ کا وعدہ دیا) یعنی اس کے ساتھ جگہ یا وقت مقرر کیا) قرآن کریم میں اس باب سے فعل کے صیغے چار جگہ آئے ہیں اور ہر جگہ دو مفعول کے ساتھ۔ اور زیر مطالعہ آیت بھی ان میں سے ایک ہے۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں