اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • اور ان دونوں معنی کے لحاظ سے ہر انسان (بلکہ جنّ یا فرشتہ بھی) اللہ تعالیٰ کا ’’ عبد ‘‘ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ لفظ (عبد) ۔ واحد یا بصورت ِجمع ـــ جب اللہ تعالیٰ کے پاک نام کی طرف (جیسے عبد اللہ) یا اللہ تعالیٰ کے لیے کسی ضمیر کی طرف مضاف ہو( جیسے عبدہٗ، عبدنا میں) تو یہ عموماً اس (عبد) کی ایک بڑی عزت اور تکریم کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے یہاں (آیتِ زیر مطالعہ میں)’’ عبدنا ‘‘آیا ہے۔ اس قسم کے مزید استعمالات آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گے۔

۱:۱۷:۲(۴)     [فَأْتُوْا بِسُوْرَةٍ] ـــ یہ دو لفظ ہیں ایک فعل ’’فَأْتُوْابِ…‘‘ اور ایک اسم ’’سُوْرَۃ‘‘ــ  ہر ایک کی الگ الگ لغوی تشریح کی جاتی ہے:۔

        ’’ فَأتُوْا بِ…‘‘ بھی دراصل تین کلمات یعنی ’’فَ+اِئْتُوا+بِ کا مرکب ہے۔ اس کی ابتدائی فاء (فَ) تو حرف عطف بمعنی ٔ ’’پس‘‘ یا ’’تو پھر‘‘ ہے۔ اور آخری باء (بِ) فعل کا صلہ ہے جو اس کے معنی متعین کرتا ہے۔ جیسا کہ ابھی بیان ہوگا۔

  • فعل ’’ اِئْتُوْا‘‘ کا مادہ ’’أ ت ی‘‘ اور وزن اصلی ’’اِفْعِلُوْا‘‘ہے۔ یعنی یہ فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’اِئْتِیُوْ ا‘‘تھی۔ جس میں واو الجمع سے ماقبل والی یاء (ی) جو لام کلمہ ہے ساقط کر دی جاتی ہے۔ اَور اس سے ماقبل کے عینِ کلمہ کو (جو یہاں ’’ت‘‘ ہے) مکسور (تِ) ہونے کی بناء پر ضمہ (ـــــُـــــ) دے دیا جاتا ہے۔ (اگرعین کلمہ مفتوح یا مضموم ہو تو وہ ضمہ (ــــُـــــ)یا فتحہ (ــــــَــــ) برقرار رہتا ہے)  ـــ   اور شروع کا ’’اِءْ ‘‘ یا ( 126#) مہموز کے قاعدہ تخفیف کی بناء پر اب ’’اِیْ‘‘ میں بدل جاتا ہے (دو ہمزوں کے جمع ہونے کی بنا پر جن میں پہلا مکسور اور دوسرا ساکن ہے) تاہم چونکہ اس (اِءْ؎ =اِیْ؎")(127#) کا پہلا ہمزہ ہمزۃ الوصل اور دوسرا (اصل مادہ کا) ہمزۃ القطع ہے (جو ضرورتًا ’’ی‘‘ میں بدل دیا گیا ہے۔ اس لیے جب اس (اِءْ؎  یا اِیْ؎)(128#)  سے پہلے ’’واو‘‘ یا ’’فاء‘‘ عاطفہ آجائے تو یہ ’’ی‘‘ میں بدل جانے والا ہمزہ ساکنہ (تلفظ میں) دوبارہ لَوٹ آتا ہے۔ مگر اب اس کے شروع والا ہمزۃ الوصل تلفظ بلکہ کتابت میں بھی گرادیا جاتا ہے ـــ  البتہ اگر ’’فَ‘‘ یا ’’وَ‘‘ کی بجائے کسی اور حرف (عطف)سے ملائیں تو یہ ہمزۃ الوصل لکھنے میں برقرار رہتا ہے۔ (اگرچہ پڑھنے میں نہیں آتا) جیسے ’’ ثُمَّ ائْتُوا ‘‘ (طہ : ۶۴) میں ہے۔
  • اس مادہ (أ ت ی)سے فعل ثلاثی مجرد ’’أتٰی یَأْتِی   اِتْیانًا‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے اور لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اس کے معنی دو ہیں (۱) آنا۔ جو لازم ہے مگر بعض دفعہ ’’جاء‘‘ کی طرح اس کے ساتھ ایک مفعول بھی آجاتا ہے۔ (جیسے ’’جاء ہ‘‘یا ’’اتاہ‘‘ میں) اس وقت اس کا ترجمہ ’’… کے پاس آنا‘‘ ہوتا ہے (۲) … (کوئی کام) …کرنا۔ یعنی بطور متعدی آتا ہے۔ جیسے  ’’اتی الامرَ‘‘ اس نے وہ کام کیا‘‘ مختلف صلات (عموماً ’’بِ‘‘ یا ’’علی‘‘ کے ساتھ یہ فعل مختلف معنی دیتا ہے ۔ مثلاً’’أَتی بِ … =کو لانا،’’أَتی علی …=پر سے گزرنا، …کو ختم کردینا وغیرہ۔ اس کے یہ تمام استعمالات قرآن کریم میں آئے ہیں۔ جن کا بیان اپنے اپنے موقع پر آئے گا۔ان شاء اللہ
  • یہاں (زیر مطالعہ آیت میں)یہ فعل باء(بِ) کے صلہ کے ساتھ بمعنی ’’لانا، لے آنا‘‘ آیا ہے۔ اور یہ ’’ فَأتوا بِ ‘‘ اسی سے فعل امر کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں ’’تم لے آؤ‘‘ ـ  فعل مجرد ’ ’’أتٰی یأتِی ‘‘ سے فعل امر ’’اِئْتِ‘‘ (دراصل اِئْتِیْ،  اِئتِیا، اِئتُوا، اِئتِیْ، ائُتِیا اور اِئتِیْنَ‘‘ ) بنتا ہے جس کے تمام صیغوں میں ہمزہ کو یاء(ی) میں بدل کر پڑھا اور لکھا جاتا ہے یعنی ’’اِیْتِ، اِیْتیا، اِیتُوا، اِیْتِیْ، اِیْتِیا، اور اِیْتِینَ‘‘ کی صورت میں اور کسی ماقبل متحرک (’’وَ‘‘ یا  فَ وغیرہ)سے ملنے کی صورت میں اصل مادہ والا ہمزہ (جو بوجہ تخفیف ’’ی‘‘ میں بدلا تھا) پھر لوٹ آتا ہے۔ جیسا کہ ابھی اوپر ’’ فأتوا ‘‘ کی اصلی اور استعمالی شکل کے سلسلے میں بیان ہوا ہے
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں