اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

[وَرَحْمَتُہٗ] جو ’’وَ‘‘ اور+ ’’رَحْمَۃ‘‘ (رحمت)+ ’’ہ‘‘(اس کی) کا مرکب ہے۔ لفظ ’’رحمۃ‘‘ (عربی املاء یہی ہے) کا مادہ ’’رح م‘‘ اور وزن ’’فَعْلۃٌ‘‘ ہے۔ یہ اس مادہ سے فعل مجرد (رحِم   یرحَم= مہر بانی کرنا) کا مصدر بھی ہے۔ اس فعل کے باب اور معنی وغیرہ پر سورۃ الفاتحہ کے شرو ع میں بات ہوئی تھی یعنی ۱: ۱:۱ (۳) ۔ لفظ ’’رحمۃ‘‘ کے معنی ’’خیر اور بھلائی‘‘ ہیں۔ اردو میں اس کے لیے ’’مہر‘‘ اور ’’مہربانی‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے اور خود یہی لفظ ’’رحمت‘‘ (تائے مبسوطہ کی املاء کے ساتھ) اردو میں اپنے اصل عربی معنی کے لیے عام رائج ہے۔ اور یہ لفظ قرآن کریم میں کثیر الاستعمال لفظ ہے جو ۱۱۳ کے قریب مقامات پر آیا ہے۔

۱:۴۱:۲ (۶)     [لَکُنْتُمْ] یہ ’’لَ‘‘ (تو ، البتہ، تو ضرور ہی) اور ’’کُنْتُمْ‘‘ (تم تھے، تم ہوتے، تم ہوجاتے) کا مرکب ہے۔

            یہاں بلحاظ معنی و استعمال وضاحت طلب لفظ ’’لام‘‘ (لَ) ہے۔

حرف لام (ل) عربی میں متعدد معانی کے لیے اور مختلف طریقوں سے استعمال ہوتا ہے۔ مختصراً  اسے دو قسموں میں تقسیم کرلیتے ہیں (۱) لامِ عاملہ اور (۲) لام غیر عاملہ۔

  • لام عاملہ جارّہ (برائے اسم) بھی ہوتا ہے۔ اور جازمہ (برائے فعل مضارع) بھی۔ لام الجرّ (لام جارّہ) کے استعمال اور اس کے بعض مشہور معانی پر الفاتحہ:۲ [۱:۲:۱ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔
  • لام جازمہ (لامُ الجزم) کو ’’لام الأمر‘‘ بھی کہتے ہیں یہ فعل امر غائب (یا متکلم) پر داخل ہوتا ہے اور مضارع کو مجزوم کردیتا ہے۔ اور اگر اس (لام) سے پہلے’’و‘‘ یا ’’فَ‘‘ لگ جائے تو یہ لام خود بھی مکسور کی بجائے ساکن ہوجاتا ہے۔ جیسے ’’فَلْیَضْحَکُوا‘‘ (پس چاہیے کہ وہ ہنس لیں) دراصل ’’لِیضْحکُوْا‘‘ تھا مگر ’’فَ‘‘ کی وجہ سے لام ساکن ہوگیا ہے۔

لامِ جارہ اور لام جازمہ ہمیشہ مکسور (لِ) ہوتا ہے البتہ لام جارّہ ضمیروں سے پہلے مفتوح (لَ) پڑھا جاتا ہے ما سوائے ضمیر مجرور واحد متکلم (ی) کے کہ اس کے ساتھ یہ مکسور ہی آتا ہے۔ اور فعل مضارع سے پہلے (لِ) لام جزم (مکسورہ) کا ساکن ہونا ابھی اوپر بیان ہوا ہے۔

  • کبھی لام مکسور (لِ) کے بعد ’’اَنْ‘‘ یا ’’کَیْ‘‘ مقدر (Understood) ہوتا ہے اور یہ مضارع کو نصب بھی دیتا ہے مگر یہ نصب دراصل ’’لام‘‘ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس مقدرہ (أَن یا کَیْ) کی وجہ سے ہوتی ہے اسی لیے اس قسم کے لام کو ’’ لام کی ‘‘ بھی کہتے ہیں اور اس کا ترجمہ ’’تاکہ‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ یہ  ’’کہ ‘‘ عربی ’’کَیْ‘‘سے لیا گیا ہے۔
  • غیر عاملہ لام (جو نہ کسی اسم کے اعراب پر اثر انداز ہوتا ہے نہ فعل پر) لام عاملہ کے برعکس ہمیشہ مفتوح (لَ) آتا ہے اور یہ زیادہ تر معنی میں زور اور تاکید پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے کبھی (۱) یہ مبتدأ پر بھی آتا ہے جیسے ’’ لَاَانْتُمْ اَشَدُّ رَهْبَةً   ‘‘ (الحشر:۱۳) میں ہے۔ (۲) یہ (لَ) ’’اِنّ‘‘ کے اسم اور خبر پر بھی آتا ہے جیسے ’’ اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ‘‘ (ابراہیم:۳۹) میں ہے۔  إِنَّ کے اسم پر لام تاکید (لَ) عموماً اس وقت آتا ہے جب اس کی خبر بصورت مرکب جاری یا بصورت ظرف مضاف پہلے آئے جیسے ’’ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــلْعٰلِمِيْنَ ‘‘ (الروم:۲۲) میں ہے  (۳) کبھی یہ (لَ) فعل مضارع پر داخل ہوکر اس میں فعل حال کے معنی پیدا کرتا ہے جیسے ’’ وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِـيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ‘‘ (النحل:۱۲۴) اور کبھی (۴) یہ لام مفتوحہ ’’لَو‘‘ (اگر) اور ’’لَوْلَا‘‘ (اگر نہ ہوتا) کے جواب پر داخل ہوتا ہے جیسے ’’ لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا ‘‘ (الانبیاء:۲۲) میں اور ’’ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ‘‘ (البقرہ:۲۵۱) میں ہے۔ اور (۵) کبھی یہ (لَ)’’ إِنْ‘‘ شرطیہ پر اور جواب قسم پر بھی داخل ہوتا ہے جیسے ’’وَلَئِنْ(جو ’’لَإِنْ‘‘ ہی ہے۔  وَلَىِٕنْ نَّصَرُوْهُمْ لَيُوَلُّنَّ الْاَدْبَارَ   (الحشر:۱۲) اور قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَاِنْ كُنَّا لَخٰطِــــِٕيْنَ     (یوسف:۹۱) میں آیا ہے۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں