اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • بعض حضرات [1]نے یہاں (زیر مطالعہ آیت میں) بھی ’’باہم وعدہ‘‘ والا مفہوم یوں لیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے (۴۰ رات کا) وعدہ تھا اور موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے یہ ’’وفا‘‘ کرنے کاو عدہ تھا۔ تاہم اس نکتہ آفرینی کی بجائے وہی پہلی بات (کہ واعدَ یہاں بمعنی وعَد ہی ہے) زیادہ بہتر ہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ’’الدوری‘‘ کی قراء ت میں اسے ’’وعَدُنا‘‘ ہی پڑھا گیا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اُردو کے تمام مترجمین نے یہاں ’’مشارکت‘‘ اور ’’باہم‘‘ والی خصوصیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس (واعَدْنا) کا ترجمہ ’’ہم نے وعدہ دیا، وعدہ کیا، کر لیا تھا اور ٹھہراؤ کیا‘‘ کے ساتھ ہی کیا ہے۔

۱:۳۳:۲ (۲)     [مُوْسٰی]  بعض نے اس کا اشتقاق بعض عربی مادوں سے بیان کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ یہ ’’م و س‘‘ کے فعل مجرد ’’ماس یموسُ‘‘ (مونڈنا) سے یا ’’م ی س‘‘ کے فعل ’’ماسَ یمیس‘‘ (اکڑ کر چلنا) سے ’’فُعلیٰ‘‘ ہے۔ یا پھر ’’وسی‘‘ مادہ سے فعل ’’اَوْسی یُوْسِی (بابِ افعال) رأسَہٗ‘‘ (اس نے اس کا سر مونڈا) سے اسم المفعول (مُفْعَلٌ)  سمجھا۔ اشتقاق کے یہ تمام نظریات بالکل غلط ہیں۔ دراصل ’’ان مادوں سے (خصوصاً آخری مادہ سے) اسم الفاعل ’’مُوْسٍی‘‘ (مُفْعِلٌ) عربی میں استرے RAZOR) )کے لیے استعمال ہوتا ہے اور بعض اسے ’’موس‘‘ (ماس یموس۔ مونڈنا)سے ’’فُعْلی‘‘ کے وزن پر مشتق گنتے اور اسی طرح (موسی ًیا موسیٰ) ہی بولتے ہیں۔ بہر حال اس لفظ کا ’’موسی علیہ السلام‘‘ کے نام سے کوئی لغوی یا اشتقاقی تعلق نہیں ہے۔[2]   سوائے اس کے کہ اگر ضبط کے بغیر (بصورت ’’موسیٰ‘‘) لکھے ہوں تو دونوں میں ایک مشابہت لفظی ہے۔

کلمہ ’’موسیٰ ‘‘ جو ایک جلیل القدر پیغمبر کا نام ہے۔ دراصل ایک عبرانی (یا قبطی) لفظ ہے جو ’’مو‘‘ (پانی) اور ’’سا‘‘ (درخت) سے مرکب ہے۔ یعنی وہ جو دریا کے پانی اور اس کے کنارے کی جھاڑیوں میں ملا۔ [3] موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا یہ واقعہ قرآن کریم (القصص اور طٰہٰ) میں بھی بیان ہوا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام (مختلف واقعات کے ضمن میں) قرآن کریم کے اندر ۱۳۶ دفعہ وارد ہوا ہے۔

 ۱:۳۳:۲ (۳)    [اَرْبَعِیْنَ] کا مادہ ’’ر ب ع‘‘ اور وزن ’’اَفْعلِیْنَ‘‘ ہے  جو لفظ ’’اَرْبعٌ‘‘ (بمعنی ’’چار‘‘) سے ماخوذ ہے۔ اس کی شکل بظاہر ’’اَرْبَعٌ‘‘ کی جمع مذکر سالم کی بنتی ہے۔ یعنی بحالت رفع ’’اَربَعُوْنَ‘‘ اور بحالت نصب و جر ’’اربَعِیْنَ‘‘ ہوتی ہے۔ اسی لیے اسے نحو کی اصطلاح میں ’’مُلحَق بجمع المذکر السالم‘‘ (جمع مذکر سالم سے ملایا ہوا) کہتے ہیں۔

  • اس کلمہ (اربعون یا اربعین) کے معنی ہیں ’’چالیس‘‘۔ ’’اربع‘‘ (چار) اور ’’اربعین‘‘ (چالیس) اس مادہ (ربع) سے ماخوذ جامد اسماء ہیں یعنی ان کو اہل زبان نے ان معنوں کے لیے بنالیا ہے۔ مگر یہ کسی قاعدہ اور اصول کے تحت بننے والے (مشتق) اسماء نہیں ہیں۔ لفظ ’’اربعین‘‘ (اسی طرح نصبی حالت میں) قرآن کریم میں کل چار جگہ آیا ہے۔

________________________________________

[1] ۔ مثلا اعراب القرآن (للنحاس) ج۱ ص۲۲۴، البیان (لابن الانباری) ج۱ ص ۸۲ اور البیان (للعکبری) ج۱ ص۶۲۔ نیز متعدد تفاسیر۔

[2] ۔۔دیکھئے البیان (للعکبری) ج۱ ص ۶۲۔۶۳۔ نیز القاموس (للفیروز آبادی) مادہ ’’موس‘‘

[3] دیکھئے البیان (للعکبری) ج۱ ص ۲۶۔ ۶۳۔ نیز القاموس (للفیروز آبادی) مادہ ’’موس‘‘

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں