اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سور ۃ البقرہ     آیت نمبر ۵۴

۳۴:۲  وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اِنَّکُمۡ ظَلَمۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ بِاتِّخَاذِکُمُ الۡعِجۡلَ فَتُوۡبُوۡۤا اِلٰی بَارِئِکُمۡ فَاقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ عِنۡدَ بَارِئِکُمۡ ؕ فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۵۴﴾

۱:۴۳:۲       اللغۃ

[وَاِذْ] کے معانی و استعمال پر ابھی اوپر [۱:۳۳:۲]میں بات ہوئی تھی۔ اور یہ  (وَاِذ) اگلی آیات میں بھی (البقرہ:۸۴ تک) بتکرار آئے گا ’’وَ‘‘ کے معانی اور استعمالات کی وضاحت کے لیے دیکھئے الفاتحہ:۵ [۱:۴:۱ (۳) ]اور البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۱) ]اور ’’اِذْ‘‘ کے استعمال اور معنی کے لیے دیکھئے البقرہ:۳۰[۱:۳۲:۲ (۱)

[قَالَ مُوْسٰی] ’’قَالَ‘‘ کا مادہ ’’ق و ل‘‘اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ ہے۔ اصلی شکل ’’قَوَل‘‘ تھی جس میں اہل عرب واو متحرک ماقبل مفتوح کو الف میں بدل کرلکھتے اور بولتے ہیں اور یوں  ’’قَوَلَ‘‘ سے ’’قَالَ‘‘ ہو جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’قال یقول قولاً‘‘ (کہنا) کے باب معنی اور استعمال پر البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۵)]میں بات ہوچکی ہے۔ اس فعل مجرد کے متعدد صیغے اس سے پہلے گزر چکے ہیں۔

’’موسٰی علیہ السلام ‘‘  ایک معروف پیغمبر کا نام ہے۔ ویسے اس لفظ  (عَلَم) کی اصل کے بارے میں البقرہ:۵۱ [۱:۳۳:۲ (۲) ]میں وضاحت کی گئی تھی۔ اس طرح ’’وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی‘‘ کا ترجمہ ہوا ’’اور جب کہا موسیٰ (علیہ السلام) نے:

۱:۳۴:۲ (۱)     [لِقَوْمِہٖ] یہ  لام الجر + قوم ہ (ضمیر مجرور متصل) کا مرکب ہے۔ اس میں لام (لِ) تو فعل ’’قال‘‘ کے ساتھ استعمال ہونے والا صلہ ہے قال لِ. . . . .= اس نے . . . . .کو / سے کہا۔  ضمیر (ہٗ) کا ترجمہ یہاں ’’اس کی‘  اپنی‘‘ ہے۔ اس طرح  ’’لِقومِہٖ‘‘ کا ترجمہ ’’اپنی قوم سے‘‘ یا ’’اپنی قوم کو ‘‘بنتا ہے جسے بعض نے ’’اپنی قوم کے لوگوں سے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔

  • لفظ ’’قَوْمٌ‘‘ (جو عبارت میں خفیف اور مجرور آیا ہے) کا مادہ ’’ق و م‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ یہ مادہ کثیر الاستعمال اور اس کے مشتقات کثیر المعانی ہیں۔ اس مادہ سے فعل مجرد( قام یقوم= کھڑا ہونا) کے باب اور معنی وغیرہ پر الفاتحہ:۶ [۱:۵:۱ (۴)]میں اور پھر البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۳) ]میں اس سے مزید فیہ کے ابواب (استفعال اور اِفعال) کے ساتھ بحث گزر چکی ہے۔
  • لفظ ’’قَوْم‘‘ اس مادہ سے ایک اسم جامد ہے جس کے معنی ہیں ’’لوگوں کی ایسی جماعت جن کو کوئی ایسی چیز (یکجا) جمع کرتی ہو جس کی خاطر وہ سب سرگرم عمل ہوں‘‘۔عربی میں بنیادی طور پر یہ لفظ صرف ’’مردوں کی جماعت‘‘ پر بولا جاتا ہے (اس کی ایک مثال الحجرات:۱۱ میں ہے) اگر چہ بعض دفعہ اس میں عورت بھی شامل سمجھی جاتی ہے (دیکھئے القاموس للفیروز آبادی)۔ قریبی رشتہ داروں اور حامیوں وغیرہ کو بھی کسی آدمی کی ’’قوم‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ مذکر مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے (قرآن کریم میں دونوں استعمال آئے ہیں) ـ  کبھی کبھی یہ لفظ (کسی خاص سیاق میں) ’’اعداء‘‘  (دشمنوں) کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے (مگر یہ استعمال قرآن میں نہیں آیا)
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں