۳۔ ’’مَن‘‘ کا ایک استعمال ’’شرطیہ‘‘ کا ہے یہ (مَنْ شرطیہ) اپنے بعد آنے والے فعل (مضارع) اور شرط کے جواب میں آنے والے فعل (مضارع) (دونوں) کو جَزم دیتا ہے جیسے ’’ مَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا يُّجْزَ بِهٖ ‘‘(النسا: ۱۲۳) میں اس وقت اس کا اردو ترجمہ ’’جو کوئی بھی‘‘، ’’جس کسی نے بھی‘‘ وغیرہ کے ساتھ کرنا چاہئے۔ اور چونکہ شرط میں ہمیشہ مستقبل کا مفہوم ہوتا ہے۔ (شرط ماضی کے بارے میں تو ہو ہی نہیں سکتی) اس لیے اگر ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ کے ساتھ فعل ماضی بھی آئے (جیسے ’’ مَنْ عَمِلَ صَالحًا….‘‘ (المومن:۴۰) میں) تو بھی اس کا اردو ترجمہ فعل مستقبل کے ساتھ ہی کیا جانا چا ہئے۔
’’ مَنْ‘‘کی ان تین معروف اقسام (استفہامیہ، موصولہ اور شرطیہ) اور ان کے مواقع استعمال کو ذہن میں رکھئے۔ آگے چل کر یہ چیز کسی عبارت کے اعراب اور معنی سمجھنے میں مدد دے گی۔
۱:۷:۲(۵) [یَقُوْلَ] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’یَفْعُلُ‘‘ ہے یعنی اس کی شکل اصلی ’’یَقْوُلُ‘‘ تھی۔ جس میں عربوں کے تلفظ ـ یا صرفی قاعدہ ۔۔کے مطابق ’’و‘‘ کی حرکت (ـــــُـــــ) ماقبل ساکن (ق) کو دے کر خود ’’واو‘‘ کو اس حرکت کے موافق حرف میں بدل دیتے ہیں۔ جو موجودہ صورت میں ’’واو‘‘ ہی رہتی ہے۔ اس طرح یَقْوُلُ ـــ یقُول میں بدل جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’قال یقول قَوْلًا‘‘۔ دراصل قوَل یَقْوُل قَولًا۔ (باب نصر سے) آتا ہے جس کا عام مصدری اردو ترجمہ ’’کہنا‘‘ ہے۔ تاہم سیاق و سباق اور مضمون کی مناسبت سے بعض دفعہ اس کاترجمہ ’’فرمانا‘‘ اور کبھی ’’عرض کرنا‘‘ یاکسی اور مناسب فعل سے بھی کرلیا جاتا ہے۔ یہاں ’’ یقول‘‘ فعل مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے جس کا ترجمہ ’’کہتا ہے‘‘ ہو گا۔ اس فعل (قالَ) کے مفعول (یعنی کیا کہا؟) کے لیے عموماً تو کوئی جملہ ہی آتا ہے لیکن اگر جملے کی بجائے کوئی ’’اسم‘‘ آجائے تو وہ مفعول بنفسہٖ (بغیر صلہ کے) آتا ہے (لہٰذا منصوب ہوتا ہے) جیسے ’’وَاللّٰهُ يَـقُوْلُ الْحَـقَّ‘‘ (الاحزاب:۴) اور ’’قَالُوْا سَلامًا‘‘ (ھود:۶۹) میں اور جس ’’سے‘‘ بات کی جائے (یعنی مخاطب) تو اردو کے اس ’’سے‘‘( کہا) کے لیے عربی میں فعل ’’ قال‘‘ کے بعد لام الجر (لِ) بطور صلہ کے آتا ہے جیسے ’’قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ‘‘ (الاعراف:۱۲۸) میں خیال رہے ’’قالہُ‘‘ کا مطلب ہے ’’اس نے وہ (بات)کہی‘‘ اور ’’قال لہُ‘‘ کے معنی ہیں ’’اس نے اس سے کہا‘‘ ایسے موقع پر اردو کے ’’سے‘‘ کا ترجمہ عربی میں ’’مِنْ‘‘ سے کرنا شدید غلطی ہوگی اور مخاطب کو مفعول بنفسہٖ سمجھ لینا بھی ویسی ہی غلطی ہے۔
اس فعل ثلاثی مجرد(قال یقول) کے مختلف صیغے، مصدر اور بعض مشتقات قرآن کریم میں نہایت کثرت سے وارد ہوئے ہیں اور مزید فیہ کے ایک باب (تفعّل) سے بھی ایک دوصیغے آئے ہیں۔
۱:۷:۲ (۶) [اٰمَنَّا بِاللّٰهِ] جو ’’آمنَّا‘‘ (جس پر ابھی بات ہوگی) +بِ (بمعنی ’’پر‘‘)+اللّٰہ کا مرکب ہے۔ اس میں کلمہ ’’آمَنَّا‘‘ کا مادہ ’’أم ن‘‘اور وزن اصلی ’’اَفعَلْنَا‘‘ ہے اور اس کی شکل اصلی ’’أَأْمَنْنَا‘‘ تھی۔ جس میں ’’اجتماعِ ھمزتین‘‘ کے باعث ’’أَ أْ‘‘ بدل کر ’’ أَ ‘‘یا ’’ آ‘‘ یا ’’اٰ‘‘ ہوگیا (اس کے رسم پر آگے بات ہوگی) اور دو ’’نون‘‘ بھی مدغم ہو کر ’’نَّا‘‘ کی صورت اختیار کرگئے اور یوں یہ لفظ’’آمَنَّا‘‘ بنا ـــ اس مادہ (امن) سے فعل ثلاثی مجرد کے معانی و استعمال ـــ بلکہ اس کے باب افعال (آمن یُؤمن ایمانًا) کے معنی پر اور اس کے صلہ ’’بِ‘‘ کے استعمال پر بھی البقرہ میں بات ہوچکی ہے [دیکھئے۲:۲: ۱(۱)]’’ آمنَّا‘‘ اسی باب افعال سے صیغہ جمع متکلم (فعل ماضی) ہے اور اس کے ساتھ ’’بِاللّٰہ‘‘ لگنے سے اس (آمنّا بِاللہ) کا لفظی ترجمہ تو ہوگا ’’ہم ایمان لائے اللہ پر ‘‘ جسے سلیس اردو میں ’’ہم اللہ پر ایمان لائے‘‘کی شکل دی جاسکتی ہے۔ جب کہ بعض مترجمین نے اردو محاورے کے مد نظر رکھتے ہوئے ’’ہم ایمان رکھتے ہیں‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے جو مفہوم کے لحاظ سے درست سہی مگر وہ ’’آمنّا‘‘ سے زیادہ ’’نؤمن‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے۔