اس باب ’’افعال‘‘ سے ہی یہ فعل ’’آمن‘‘ ایک دوسرے صلہ ’’لام (لِ)‘‘ کے ساتھ (مثلاً آمنَ لہٗ) ’’سچ ماننا، مطیع ہونا یا وزن دینا‘‘ کے معنی میں آتا ہے اور بغیر صلہ کے (یعنی آمَنَــــہٗ) ’’امن دینا، امان دینا‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے اور قرآن کریم میں بھی یہ مذکورہ بالا تینوں معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ان کا ذکر بھی اپنے اپنے مقام پرآئے گا۔
۱:۲:۲ (۲) [بِالْغَيْبِ]یہ دراصل بِ +الغَیْب ہے اور اس میں ’’با‘‘ (بِ) تو فعل ’’یُومنون‘‘ کا صلہ ہے جس کے معنی ابھی اوپر بیان ہوئے ہیں۔ ’’الغیب‘‘ معرّف باللام ہے اور (اصل لفظ) ’’غیب‘‘کا مادہ ’’غ ی ب‘‘اور وزن ’’فَعْل‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد غَابَ یغِیْب غَیْبًا (دراصل غَیَبَ یَغْیِبُ) باب ضرب سے بغیر صلہ کے تو ہمیشہ لازم آتا ہے اور اس کے معنی ’’پوشیدہ ہونا، چھُپا ہوا ہونا‘‘ہوتے ہیں اور غَابَ عن ـــ =ـــ سے پوشیدہ ہونا اور غَابَ فی ـــ=ـــ میں چھپ جانا‘‘ کے معنی میں آتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ (غیب) سے فعل ثلاثی مجرد کا کوئی صیغہ استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ افعال میں سے تو صرف باب افتعال کا ایک صیغہ ایک جگہ [الحجرات: ۱۲]آیا ہے۔ البتہ اس مادہ (غیب) سے بعض مصادر اور مشتقات قرآن کریم میں آئے ہیں۔ خود لفظ ’’غیب‘‘ مختلف تراکیب میں پچاس سے زیادہ دفعہ آیا ہے۔ ’’غیب‘‘ در اصل تو مصدر ہے بمعنی ’’چھپنا‘‘۔ مگر اکثر یہ اسم الفاعل (یعنی غائب) کے معنی میں استعمال ہواہے۔ یعنی ’’وہ جو انسانی حواس سے پوشیدہ ہے‘‘ یا جس کا علم حواس سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ چونکہ اردو میں یہ لفظ اپنے عربی معنی کے ساتھ مستعمل ہے۔ اس لئے بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’غیب‘‘ ہی رہنے دیا ہے۔ جب کہ بعض حضرات نے اسے ’’بے دیکھی چیزوں‘‘، ’’چھپی ہوئی چیزوں‘‘ ’’بن دیکھی باتوں‘‘ یا صرف ’’بے دیکھے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں حواس سے مراد صرف آنکھ لینا (دیکھنا) بڑامحدود سا مفہوم بنتا ہے۔ ’’چھپی ہوئی چیزوں‘‘ والا ترجمہ زیادہ بہتر ہے اور خود لفظ ’’غیب‘‘ ہی رہنے دینا بھی نہایت موزوں ہے۔ ]مصدر کے اسم الفاعل یا اسم المفعول کے معنی میں استعمال ہونے پر کلمہ ’’ربّ‘‘ اور کلمہ ’’کتاب‘‘ کے ضمن میں بات ہوچکی ہے۔]
۱:۲:۲ (۳) [وَ يُـقِيْمُوْنَ] میں واو (وَ) تو عاطفہ (بمعنی اور) ہے اور ’’يُـقِيْمُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ق و م‘‘ اور وزن اصلی ’’یُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے جس کی شکل اصلی ’’ یُقْوِمُوْنَ‘‘ تھی۔ جسے اہل زبان بدل کر ’’يُـقِيْمُوْنَ‘‘ بولتے ہیں۔ صَرْفیوں نے جب اس نوعیت کے بہت سے کلمات کی تبدیلیوں پر غور کیا تو انہیں اس میں ایک قاعدہ کار فرما نظر آیا اور وہ یہ کہ ’’اس (قسم کے الفاظ) میں واو کی کسرہ (ــــــِــــ) اس کے ساکن ماقبل یعنی ’’ق‘‘ کو دے دی جاتی ہے اور پھر خود ’’واو‘‘کو اب اپنے سے ماقبل کی حرکت کے موافق حرف (ی) میں بدل دیتے ہیں۔ اسی کو صرفی تعلیل بھی کہتے ہیں۔ اس قاعدہ کا استعمال آپ سورۃ الفاتحہ میں ’’نَسْتَعِيْنُ‘‘ اور ’’ مُسْتَـقِيْمَ ‘‘ میں دیکھ چکے ہیں۔