اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ  البقرہ   آیت نمبر ۴۹ اور ۵۰

۳۲:۲     وَ اِذۡ نَجَّیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآ ءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ ﴿۴۹﴾وَ اِذۡ فَرَقۡنَا بِکُمُ الۡبَحۡرَ فَاَنۡجَیۡنٰکُمۡ وَ اَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ ﴿۵۰﴾  

۱:۳۲:۲       اللغۃ

[وَاِذْ]’’وَ ‘‘کے معنی اور استعمال کے لیے الفاتحہ:۵ [۱:۴:۱(۳)]اور ’’اِذْ‘‘کے معانی و استعمال کے لیے البقرہ:۳۰ میں[۱:۲۱:۲(۱)]میں دیکھئے۔ ’’وَاِذْ‘‘ کا (یہاں) لفظی ترجمہ ہے ’’اور جب‘‘۔ ’’اذ‘‘کے قواعد استعمال کو ملحوظ رکھتے ہوئے (جن کی وضاحت ۱:۲۱:۲(۱)میں ہوچکی ہے)یہاں اس کا ترجمہ (یاد کرو) جب کہ‘‘ (وہ زمانہ یاد کرو) جب کہ‘‘، ’’(اس وقت کو یاد کرو) جب‘‘، ’’اور (یاد کرو) جب) ’’(ہمارے ان احسانات کو یاد کرو) جب‘‘، ’’(وہ وقت یاد کرو) جب/   جب کہ‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ ان سب تراجم میں یہ (یاد کرو) والی بات ’’اذ‘‘ ظرفیہ کے نحوی تقاضوں کی بناء پر لائی گئی ہے۔ تاہم اُردو محاورے میں اس کے لانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ بعض بزرگوں نے اس کے صرف لفظی ترجمہ ’’اور جب‘‘پر ہی اکتفا کیا ہے۔

۱:۳۲:۲(۱)     [نَجَّیْنَاکُمْ] (یہ رسم املائی ہے رسم عثمانی پر آگے بات ہوگی) اس میں آخری ضمیر منصوب ’’کُمْ‘‘ بمعنی ’’تم کو‘‘ہے اور ’’نَجَّیْنَا‘‘ کا مادہ ’’ن ج و‘‘ اور وزن ’’فَعَّلْنَا‘‘ہے اس مادہ سے فعل مجرد ’’نجایَنْجُو‘‘ (باب نصر سے) اور مختلف مصارد کے ساتھ مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً (۱) نجا ینجو نجاۃً‘‘ کے معنی ہیں: ’’نجات پانا‘‘ (یہ عربی کا لفظ ’’نجاۃ‘‘ یا ’’نجوٰۃ‘‘ (مثل زکوٰۃ و صلوٰۃ) ہی ہے جو اُردو میں لمبی ’’ت‘‘ کے ساتھ لکھا جاتا ہے) ’’چھوٹ جانا، خلاصی پانا، محفوظ ہوجانا، بچ جانا‘‘، یہ فعل لازم ہے اور جس سے نجات پائی جائے اس کا ذکر کرنا ہو تو اس سے پہلے ’’مِنْ‘‘ لگتا ہے مثلاً ’’نجامِنْہ‘‘ (اس نے اس سے نجات پائی) کہتے ہیں ’’نجاہ‘‘ کہنا غلط ہے۔ (۲) نجاینجوا نجویً کے معنی ہیں: ’’سرگوشی کرنا کسی سے خفیہ بات کرنا‘‘ ان معنی کے لیے یہ فعل بطور متعدی استعمال ہوتا ہے اور اس کا مفعول عموماً بنفسہ آتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’نجافلانًا‘‘ (اس نے فلاں سے سرگوشی کی)۔ عربی زبان میں فعل بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’نجاینجو نجائً= جلدی کرنا‘‘ نجاینجو نجوًا = کھال اتارنا یا درخت کاٹنا‘‘ ـ  وغیرہ تاہم ان معنی میں اس مادہ سے کوئی فعل قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔

  • قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے صرف دو صیغے (یوسف:۴۵ اور القصص:۲۵) آئے ہیں اور وہ بھی صرف پہلے معنی (نجات پانا) کے لیے۔ دوسرے معنی (سرگوشی کرنا) کے لیے قرآن میں صیغۂ فعل تو نہیں آیا مگر اس کا مصدر (نجوی) مختلف شکلوں (مفرد مرکب معرفہ نکرہ) میں گیارہ مقامات پر وارد ہوا ہے۔ فعل مجرد کے علاوہ اس مادہ (نجو) سے مزید فیہ کے باب تفعیل سے مختلف افعال کے صیغے ۳۷ جگہ، بابِ افعال سے ۲۳ جگہ، باب تفاعل سے ۴ جگہ اور باب مفاعلہ سے صرف ایک جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ فعل مجرد مزید فیہ سے مصادر اور اسماء مشتقہ بھی ۱۷ جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر حسبِ موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں