اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

۱:۵ :۱ (۲)     [نَا] یہ جمع متکلم (مذکر و مونث ہر دو) کے لئے ضمیر منصوب اور مجرور (ہر دو) کی صورت ہے۔ بصورتِ منصوب ترجمہ ’’ہم کو ‘‘ یا ہمیں (us) ہوگا اور مجرور ہو تو اس کا ترجمہ ’’ہمارا‘‘ (our) کیا جائے گا۔ اسی ضمیر کی مرفوع صورت ’’نَحْنُ‘‘ (بمعنی ’’ہم‘‘ یا we )  استعمال ہوتی ہے۔

۱:۵:۱ (۳)     [الصِّرَاطَ]اس لفظ کا مادہ ’’ص رط‘‘اور وزن ’’فِعَالٌ‘‘ہے اور یہ اس کی معرف باللام (منصوب) صورت ہے۔ اس مادہ (ص رط)سے کسی طرح کا کوئی فعل استعمال نہیں ہوتا۔البتہ مادہ ’’س ر ط‘‘ سے فعل ثلاثی مجرد سَرِطَ … یَسْرَطُ سَرَطاناً (باب نصر اور سمع سے) بمعنی :’’ … کو نگل جانا‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ اور اس سے بھی لفظ ’’سِراط‘‘ (بمعنی راستہ ) آتا ہے جو ہر لحاظ سے ’’صراط‘‘ کا ہم معنی ہے۔ بلکہ ان ہی معنوں میں ایک تیسرا لفظ ’’زراط‘‘ بھی آتا ہے۔ تاہم اہلِ زبان ’’صراط‘‘ کو ہی بلحاظ استعمال زیادہ فصیح اور قابلِ ترجیح سمجھتے ہیں۔ یہی قریش کی بولی تھی۔ اور قرآن کریم میں بھی یہی صورت استعمال ہوئی ہے۔ [1] اہم قراء حضرات کے ہاں ان تینوں الفاظ (صراط، سراط اور زراط) کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ ’’رسمِ قرآن‘‘ فنِ قراء ت کے ان احتمالات میں سے کسی  کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔[2]

  • لفظ ’’صراط‘‘ کے معنی راستہ یا سڑک کے ہیں اور یہ زیادہ تر نمایاں اور معروف و ممتاز راستے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اہلِ لغت صراط (جس کی اصل ’’سراط‘‘ ہے مگر ’’ط‘‘ کی مناسبت سے ’’س‘‘ کو ’’ص‘‘ پڑھا اور بولا جاتا ہے ) کی ’’وجہ تسمیہ ‘‘ بھی یہی بیان کرتے ہیں کہ راستے میں مسافر اس طرح آگے چلا جاتاہے جیسے نگلی ہوئی چیز پیٹ (اور انتڑیوں) میں گم ہوجاتی ہے۔ واللّہ اعلم۔ لفظ ’’صراط‘‘ قرآن کریم میں  ـ مفرد یا مرکب (توصیفی یا اضافی) شکل میں پنتالیس (۴۵) دفعہ وارد ہوا ہے۔

۱:۵:۱ (۴)      ]الْمُسْتَقِیْمَ] اس کا مادہ ’’ق و م‘‘ اور وزن اصلی ’’مُسْتَفْعِلٌ‘‘ ہے ۔ اور شکل اصلی ’’مُسْتَقْوِمٌ‘‘ تھی۔

  • اس مادہ (ق و م) سے فعل ثلاثی مجرد قَامَ یَقُومُ قِیَامًا (دراصل قوَم یَقْوُم) باب نصر سے آتا ہے اور اس کے معنی ’’کھڑا ہونا‘‘, ’’کھڑا رہنا‘‘ یا ’’کھڑا ہو جانا‘‘ ہوتے ہیں۔ یہ فعل بغیر صلہ کے تو ہمیشہ لازم ہوتا ہے۔ مگر مختلف صلات (مثلاً ’’عَلیٰ‘‘، ’’لِ‘‘، ’’بِ‘‘) کے ساتھ کبھی لازم کبھی متعدی (دونوں طرح) مستعمل ہے۔ اس مادہ سے مزید فیہ کے بھی متعدد ابواب مختلف معانی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں یہ مادہ مزید فیہ کے صرف باب اِفعال اور بابِ استفعال سے استعمال ہوا ہے۔

_____________________________

 [1]   ترجیح صاد کے بیان کے لئے دیکھئے الکشاف (طبع البابی) ج ۱ ص ۶۳۔

[2]  جسے قراء ت کی کسی کتاب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اور دراصل تو یہ کسی ماہر قاری سے سننے کی چیز ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں