اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۳۳

۲۳:۲    قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنۡۢبِئۡہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَنۡۢبَاَہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۙ قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ غَیۡبَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ وَ اَعۡلَمُ مَا تُبۡدُوۡنَ وَ مَا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ ﴿۳۳﴾

۱:۲۳:۲      اللغۃ
 [قال] کا مادہ ’’ق و ل‘‘اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (قال یقول=کہنا) کے باب، معنی اور استعمال پر تفصیلی بحث البقرہ:۸ یعنی ۱:۷:۲(۵)میں اور خود اسی لفظ (قال) کی اصلی شکل اور تعلیل وغیرہ کی وضاحت ابھی اوپر البقرہ:۳۰ یعنی ۱:۲۱:۲(۱)میں ہوچکی ہے۔

 [یٰاٰدَمُ]جس کی عام  املاء ’’یا آدَم‘‘ہے (رسم عثمانی پر الگ بات ہوگی) اس میں ’’یا‘‘ تو حرفِ نداء ہے جس کا اردو ترجمہ ’’اے‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ لفظ ’’آدم‘‘کے مادہ، وزن اور اشتقاق لغوی وغیرہ پر البقرہ:۳۱ یعنی ۱:۲۲:۲(۲)میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۲۳:۲(۱)     [اَنْۢبِئْـھُمْ] میں آخری ضمیر منصوب ’’ھم‘‘ کا ترجمہ یہاں ’’ان کو‘‘ہوگا۔ اور اس سے پہلے فعل ’’ اَنْۢبِیْٔ‘‘کا مادہ ’’ن ب أ ‘‘ اور وزن ’’اَفْعِلْ‘‘ہے یعنی یہ اس مادہ (ن ب أ) سے بابِ افعال کا فعل امر (صیغہ واحد مذکر حاضر)ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ کے علاوہ اس سے بابِ اِفعال کے فعل (اَنْبَأَ … یُنْبِیُٔ اِنْبائً =خبر دینا) کے معنی اور اسکے ساتھ صلہ وغیرہ کے استعمال کی بھی ضروری وضاحت البقرہ: ۳۱ یعنی ۱:۲۲:۲(۵)میں گزرچکی ہے۔ اس باب سے فعل امر کی گردان اَنْبِیْٔ، اَنْبِئَا، اَنْبِئُوْا، اَنْبِئِیْ، اَنْبِئَا اور اَنْبِئْنَ‘‘ہوگی۔ ان میں سے دوصیغے آیت نمبر ۳۱ میں (اَنْبِئُوا) اور زیرِ مطالعہ آیت نمبر ۳۳ میں (اَنْبِیْٔ) آگئے ہیں۔ ’’اَنبِئْھم‘‘ کا لفظی ترجمہ ’’تو بتا دے ان کو‘‘ہے۔ جسے بعض نے ’’تم بتلا دو انہیں‘‘سے ترجمہ کیا ہے اور بعض نے ضمیر ’’ھُم‘‘ کے لیے اس کا مرجع بطور اسم ظاہر لگا کر ’’فرشتوں کو‘‘سے ترجمہ کیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے۔

 [بِاَسْمَآئِھِمْ] یہ تین کلمات ’’بِ+ ’’اسماء‘‘ + ’’ھم‘‘ کا مرکب ہے۔ اس میں ’’باء (بِ)‘‘ تو فعل ’’اَنْبَأَیُنبِئُ‘‘ کا صلہ ہے جو اس کے مفعول ثانی سے پہلے عموماً لگتا ہے یعنی ’’انبَأ… (۱) …بِ (۲)‘‘ کے معنی ہیں ’’(۱) کو (۲) کی خبر دی۔ [اس فعل کے استعمال پر ابھی اوپر البقرہ:۳۱ یعنی ۱:۲۲:۲(۵)میں بات ہوچکی ہے۔] لفظ ’’اَسْمَاء‘‘کا مادہ ’’س م و‘‘ اور وزن ’’اَفْعَالٌ‘‘ہے۔ یہ ’’اسم‘‘کی جمع ہے اور"اسم"(نام)کی لغوی بحث سورۃ الفاتحہ کے شروع میں"بسم اللہ"کے ضمن میں گزر چکی ہے یعنی ۱:۱:۱(۱)میں۔آخری"ھم" ضمیر مجرور بمعنی ’’ان کے‘‘ہے۔ اس طرح اس مرکب ’’بِاسمائِھم‘‘ کا ترجمہ (پچھلے حصۂ  آیت ’’انبِئْھم‘‘تو بتادے/ خبر دے ان کو ’’ــــــکے ساتھ ملا کر)ہوگا ’’ان کے نام ؍ ان کے ناموں کی‘‘ جسے بعض نے ’’ان چیزوں کے نام‘‘سے ترجمہ کیا ہے جو لفظ سے ذرا ہٹ کر ہے۔

[فَلَمَّا]یہ ’’ف‘‘(بمعنی پس۔ اس کے بعد) اور ’’لَمَّا‘‘ (الحینیۃ بمعنی جب، جس وقت) کا مرکب ہے۔ ’’فاء‘‘ کا استعمال کئی دفعہ گزر چکا ہے۔ اور اگر اب بھی ضرورت ہوتو البقرہ:۲۲ یعنی ۱:۱۶:۲(۱۰)دیکھ لیجئے۔ ’’لَمَّا‘‘کے معنی و استعمال پر البقرہ:۱۷ یعنی ۱:۱۳:۲(۵)میں بات ہوچکی ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں