اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۳۱  اور ۳۲

۲۲:۲    وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ ۙ فَقَالَ اَنۡۢبِـُٔوۡنِیۡ بِاَسۡمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۱﴾قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۳۲﴾ 

۱:۲۲:۲      اللغۃ

۱:۲۲:۲(۱)     [وَعَلَّمَ] ’’وَ‘‘ (اور)ـــــ عَلَّمَ کا مادہ ع ل م اور وزن ’’فَعَّلَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ( علِم یعلَم= جان لینا) کے معنی و استعمال وغیرہ پربات ہوچکی ہے[البقرہ:۱۳یعنی ۱:۱۰:۲(۳)]

لفظ ’عَلّمَ‘‘اس مادہ (علم)سے باب تفعیل کے فعل ماضی معروف کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’علَّم........یُعَلِّمُ تَعْلِیمًا‘‘کے معنی ہیں: ’’.....کو سکھانا ، سکھلانا، بتا دینا، تعلیم دینا، ….کو ….کا علم دینا‘‘۔ باب تفعیل کی خاصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے راغب نے (مفردات) میں تعلیم کے معنی ’’کثرت اور تکرار کے ساتھ پڑھانا سکھانا تاکہ بات (سبق) سیکھنے والے کے ذہن نشین ہو جائے‘‘بتائے ہیں۔ اس فعل کے عموماً دو مفعول ہوتے ہیں جسے سکھایا جائے اور جو چیز سکھائی جائے۔ دونوں مفعول بنفسہٖ(صلہ کے بغیر) آتے ہیں جیسے ’’عَلَّمَہُ الکتابۃَ‘‘(اس نے اسے  لکھناسکھایا) البتہ(۱) بعض دفعہ مفعول اول محذوف کردیا جاتا ہے جیسے ’’ عَلَّمَ الْقُرآنَالرحمن:۲) ـــ  اور (۲) کبھی مفعول ثانی حذف کردیا جاتا ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھاجاتا ہے جیسے ’’وُیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ (البقرہ:۲۵۲) (۳)کبھی دونوں مفعول محذوف ہوتے ہیں جیسے ’’ عَلَّمَ بِالْقَلَم‘‘( العلق:۴) (۴) اور بعض دفعہ مفعول ثانی سے پہلے باء (بِ) کا صلہ بھی استعمال ہوتا ہے ، اس صورت میں اس کا ترجمہ ’’جِتلانا‘‘سے کرنا زیادہ موزوں ہوتا ہے جیسے ’’ اَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰهَ بِدِيْنِكُمْ ‘‘(الحجرات:۱۶) میں ہے۔ ان تمام مواقعِ استعمال پر حسبِ موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

اس باب تفعیل (تعلیم) سے اَفعال کے مختلف صیغے چالیس سے زائد جگہ اور اسم مشتق (مفعول) کا صرف ایک صیغہ ’’ مُعَلَّمٌ ‘‘ ایک جگہ (الدخان:۱۴) قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں۔

۱:۲۲:۲(۲)     [اٰدَمَ] بعض اہلِ لغت (مثلاً  راغب)کے نزدیک ’’آدم ‘‘مادہ ’’ادم‘‘ اور وزن ’’ اَفْعَلُ‘‘(غیر منصرف)ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’ أَأْدَمُ‘‘تھی۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد مختلف ابواب سے مختلف معنی کے لیے آتا ہے۔ مثلا ادَم یأْدِم اَدمًا(باب ضرب سے)کے معنی ہی (۱) صلح صفائی کرانا(۲) (جانور کی) کھال کو صاف کرنا (۳) روٹی کو شوربے میں ڈالنا۔ اور اسی سے عربی میں سالن کو’’اِدامٌ‘‘کہتے ہیں ـــ   اور ادِم یأدم اُدمَۃً (باب سمع سے) کے معنی ہوتے ہیں ’’رنگ میں ’’سمرہ‘‘ ہونا یعنی سرخ یا گندمی رنگ کا ہونا‘‘ عام عربی زبان میں یہ مادہ مزید فیہ کے بعض ا بواب سے بھی مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہےــ  تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کے فعل کا کوئی صیغہ کہیں وارد نہیں ہوا۔

’’اَدِم‘‘ (بابِ سمع سے)کے معنی سے آدمُ بروزن ’’اَفْعَلُ‘‘ گہرے گندمی یا بھورے رنگ والے کو کہتے ہیں۔ اس کی مؤنث ’’اَدماءُ‘‘ اور جمع (ہر دو کے لیے) ’’اُدْمٌ‘‘بروزن ’’فُعْلٌ‘‘ہے (کیونکہ یہ افعل الوان و عیوب والا وزن ہے)۔ گویا’’ آدم‘‘دراصل اسم صفت ہے اور آدم کے نام کو اس کی جلد کے (عمومی) رنگ سے مناسبت ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں