(۳) کبھی ’’اِذ‘‘ بعض ظروف (مثلاً حینَ، یومَ ، بعدَ، قیلَ وغیرہ)کے ساتھ مضاف الیہ ہو کر آتا ہے ۔ اس صورت میں بھی ’’اِذ‘‘کے بعد ایک جملہ فعلیہ آتا ہے، جیسے ’’بعدَاِذْ ھَدَ یْتَنَا(آل عمران:۸)۔ مگر مضاف الیہ ہونے کی (مذکورہ) صورت میں بعض دفعہ’’اِذْ‘‘کے بعد والا جملہ حذف کردیا جاتا ہے۔ اور اس (جملے)کے عوض ’’اِذْ‘‘ کی ’’ذ‘‘ پر تنوین جر کی طرح دو کسرہ (ـــــــٍــــــــ)لگا دیتے ہیں (مگر در اصل یہ تنوینِ جر نہیں ہوتی۔اسے ’’تنوینِ عوض‘‘ کہتے ہیں)جیسے یَوْمَئِذٍ، حِیْنَئِذٍ وغیرہ۔ اس وقت اس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہونا چاہئیے یَوْمَئِذٍ(اس دن جب کہ ….)، حِیْنَئِذٍ( اس وقت جب کہ….) وغیرہ۔ تاہم بامحاورہ اردو میں اس قسم کی ترکیب کا ترجمہ عموماً’’جس دن کہ‘‘، جس وقت کہ‘‘یا ’’جب کہ‘‘سے کر لیا جاتا ہے ۔ اس قسم کی متعدد تراکیب آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔
(۴) کبھی ’’اِذْ‘‘ تعلیل کے لیے بھی آتا ہے یعنی ’’لِأَنَّ‘‘کے معنی دیتا ہے اور اس کا اردوترجمہ ’’کیونکہ، چونکہ، اس لیے کہ‘‘ سے کیا جاتا ہے جیسے ’’ وَلَنْ يَّنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ اِذْ ظَّلَمْتُمْ ( الز خرف:۳۹) میں ’’ اِذْ ظَّلَمْتُمْ ‘‘ معنی ’’اس لیے کہ تم نے ظلم کیا ‘‘ہیں۔ ویسے غور سے دیکھا جائے تو اس ’’ اذْ تعلیلہ‘‘ میں بھی ظرفیت والے معنی موجود ہیں۔ اور اس کا ترجمہ بھی حسب موقع ’’جب کہ ‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔
(۵)کبھی ’’اِذَا‘‘ کی طرح ’’اِذْ ‘‘بھی فجائیہ آتا ہے یعنی ’’اچانک ، ’’ناگہاں‘‘کے معنی دیتا ہے ۔ تاہم قرآن کریم میں ’’ اِذْ‘‘ فجائیہ کا استعمال کہیں نہیں ہوا ۔ عربی اشعار میں البتہ اس کی کچھ مثالیں ملتی ہیں۔
- ’’ اِذْ‘‘اور ’’اِذَا‘‘(جس کے معنی و استعمال پر البقرہ:۱۱یعنی۱:۹:۲(۱) میں بات ہوئی تھی)دونوں ہی زیادہ تر ظرف زمان کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ دونوں کا با محاورہ اردو ترجمہ ’’جب‘‘سے کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم ان دو میں نمایاں فرق یہ ہے کہ ’’اذ‘‘ زیادہ تر زمانہ ماضی کے کسی "معیّن وقت"کا مفہوم رکھتا ہے۔اور"اِذَا"عموماًزمانہ مستقبل کے کسی ’’غیر معیّن وقت ‘‘کا مفہوم رکھتا ہے۔
اسی بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ’’اِذ‘‘کے ساتھ آنے والے فعل کا ترجمہ عموماً ماضی سے کیا جاتا ہے چاہے وہ فعل مضارع ہی کیوں نہ ہو ،جیسے’’ اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ ‘‘(آل عمران : ۱۲۴) اور ’’اِذَا‘‘کے بعد والے فعل کا ترجمہ عموماً مستقبل سے کیا جاتا ہے چاہے وہ صیغۂ ماضی ہی کیوں نہ ہوجیسے ’’ وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ ‘‘(البقرہ :۱۱) یہ تو آپ ۱:۹:۲(۱)میں پڑھ چکے ہیں۔
[قَالَ] کا مادہ ’’ق ول ‘‘اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ہے ۔ اصلی شکل’’قَوَلَ‘‘تھی جس میں متحرک ’’و‘‘ما قبل کے مفتوح ہونے کے باعث ’’الف‘‘بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے یعنی قَوَلَ سے قَالَ ہو جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجردکے باب اور معنی و استعمال پر البقرہ :۸ یعنی ۱:۷:۲(۵)میں بات ہوچکی ہے۔ قالَ کا ترجمہ ’’کہا ‘‘ہے جو یہاں سیاقِ عبارت کی بنا پر ’’فرمایا ‘‘ہو سکتا ہے۔
[رَبُّکَ] یہ ربّ+ک (ضمیر مجرور بمعنی ’’تیرا ‘‘کا مرکب ہے۔ لفظ ’’رب‘‘کے مادہ ، معنی وغیرہ پر مفصّل بحث الفاتحہ :۲ یعنی ۱:۲:۱(۳)میں ہو چکی ہے۔
۱:۲۱:۲(۲) [لِلْمَلٰئِکَۃِ]یہ در اصل لام الجر (ل بمعنی ’’کو ‘سے‘‘)+لام تعریف (ال)+’’ملائکۃ‘‘ کا مرکب ہے۔ کلمہ’’ملائکۃ‘‘(یہ اس کی عام عربی املاء ہے اس کے رسم عثمانی پر بحث ’’الرسم‘‘ میں ہوگی) جمع (مکسر)کا صیغہ ہے اور اس کا وزن بظاہر ’’ مَفَاعِلَۃٌ‘‘ہے اس کا واحد ’’مَلَکٌ‘ ہے