اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • یہ تو اس (کاف) کے بطور حرف الجر استعمال کی کچھ مثالیں تھیں۔ اس کے علاوہ یہ (کَ) بطور ضمیر منصوب یا مجرور کے بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ’’تجھ کو یا تیرا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور یہی (کَ) اسماء اشارہ (برائے بعید) کے آخری حصے کے طور پر بھی آتا ہے۔ اس کا بیان البقرہ:۲ [۱:۱:۲(۱)]میں ہوچکا ہے۔

۱:۱۳:۲(۳)     [الَّذِى اسْـتَوْقَدَ] اس میں ’’الَّذِى‘‘ تو اسم موصول برائے واحد مذکّر ہے جس کا ترجمہ یہاں ’’وہ جو کہ…‘‘، ’’جو جس نے کہ‘‘ ہوگا اور بعض جگہ حسب موقع اس کا ترجمہ ’’وہ جس کوکہ‘‘ یا ’’وہ کس کا کہ‘‘  سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسماء موصولہ کے بارے میں کچھ بیان الفاتحہ:۷ [۱:۶:۱(۱)]میں گزر چکا ہے۔

  • اور ’’ اسْـتَوْقَدَ ‘‘ کامادہ ’’و ق د‘‘ اور وزن ’’اِسْتَفْعَلَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد وقَد یَقِدُ (دراصل ’’یَوقِدُ‘‘) وُقُودًا (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’(آگ کا) جل اٹھنا‘‘ ہے یعنی اس کا فاعل عموماً ’’النار‘‘ ہی ہوتا ہے مثلاً کہیں گے ’’وقَدَت ِالنارُ تَقِدُ‘‘=آگ جل اٹھی [’’النار‘‘کے مونث سماعی ہونے کے باعث فعل کی تأنیث نوٹ کیجئے] قرآن کریم میں اس فعل (ثلاثی مجرد)سے کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتّہ مزید فیہ کے بعض ابواب مثلاًاِفعال اور استفعال سے کچھ اَفعال اور اسماء مشتقہ آئے ہیں جن کا بیان اپنی اپنی جگہ پر آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
  • ’’ اسـتَوقَدَ ‘‘ اس مادہ (وقد) سے باب استفعال کےفعل ماضی معروف کا پہلا صیغہ (واحد مذکر غائب)ہے۔ اس فعل ’’استَوْقَدَ یَستَوقِدُ استِیْقَادًا‘‘ (دراصل استِوْقَاد) کے معنی ’’(آگ کو) جلانا، روشن کرنا‘‘ بھی ہیں اور ’’(آگ کا) جلنا، روشن ہونا‘‘ بھی یعنی یہ فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ (وقد)سے بابِ استفعال یہی ایک صیغہ صرف اسی(ایک)جگہ اور وہ بھی بطور فعل متعدی کے آیا ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ’’اس نے …کو جلایا، …کو سلگایا، …کو روشن کیا‘‘ سے کیا گیاہے۔

۱:۱۳:۲(۴)     [نارًا] لفظ ’’نَارٌ‘‘ (جس کی یہ منصوب شکل ہے) کا مادہ ’’ن و ر‘‘ اور وزن (اصلی) ’’فَعَلٌ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’نَوَرٌ‘‘ تھی۔ جس میں ’’واو متحرکہ ماقبل مفتوح‘‘ الف میں بدل گئی ہے۔ اس مادہ (نور) سے فعل ثلاثی مجرد نار ینور(دراصل نَوَر یَنْوُرُ) نَوْرًا (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے متعدد معنی ہوتے ہیں جن میں سے ایک معنی ’’روشن کرنا‘‘ بھی ہیں۔تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کاـــ بلکہ کسی بھی باب سے ـــکوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ (صرف ایک آدھ اسم ِمشتق آیا ہے) لفظ ’’نارٌ‘‘ جو مفرد مرکب معرفہ نکرہ اور مختلف اعرابی حالتوں میں قرآن کریم کے اندر ۱۴۵ دفعہ آیا ہے، اس کے سب سے مشہور معنی ’’آگ‘‘ ہیں جو کبھی مجازاً بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال آگے چل کر المائدہ:۶۴ میں ہمارے سامنے آئے گی۔

۱:۱۳:۲(۵)      [فَلَمَّا]یہ ’’فَ‘‘ (عاطفہ بمعنی ’’ پس‘‘) +’’لَمَّا‘‘ (جس پر ابھی بات ہوگی) کا مرکب ہے۔ یہ ’’ لَمَّا ‘‘ ظرف بمعنئیِ’’حِیْنَ‘‘ یعنی ’’جب‘‘ یا ’’جس وقت‘‘ہے۔ اس میں شرط کے معنی تو شامل ہوتے ہیں مگر یہ جازم نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ فعل ماضی پر ہی آتا ہے۔ اس ’’ لَمَّا‘‘ کو نحوی حضرات ’’لَمَّا اَلحینیۃ‘‘ (وقت کے معنی والا ’’لَمَّا‘‘) کہتے ہیں اور بعض دفعہ اسے ’’حرف وجودٍ لِوجودٍ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اکثر اس کے بعد دو فعل آتے ہیں۔ جن میں سے دوسرا فعل پہلے فعل کے وجود (موجود ہونا) کی بنا پر آموجود ہوتا ہے۔ [جیسے یہاں آیت ِزیر مطالعہ میں پہلا فعل ’’ اضاءتْ ‘‘ اور اس کے بعد دوسرا فعل ’’ ذھبَ ‘‘ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں