لفظ ’’الفاتحۃ‘‘ کا مادہ ’’ف ت ح‘‘ اور وزن ’’فَاعِلَۃٌ‘‘ ہے۔ اور یہ فعل ثلاثی مجرد فَتَحَ یَفْتَحُ فَتْحاً بمعنی ’’کھولنا‘‘ سے اسم فاعل مؤنث کا معرف باللّام صیغہ ہے جس کے معنی ہیں ’’کھولنے والی‘‘۔ یہ اس سورۃ کا معروف اور زیادہ مستعمل نام ہے۔ قرآن کریم کو شروع سے کھولیں تو سب سے پہلے یہی سورت سامنے آتی ہے۔
اب ہم اللہ عزوجل کے بابرکت نام کے ساتھ اس سورۃ کا مطالعہ ـ بلحاظ لغات و اعراب اور رسم و ضبط ـشروع کرتے ہیں۔
۱:۱ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
یہ بیان ہو چکا ہے کہ (بِسْمِ اللّٰہِ) (جسے قر ّاء کی اصطلاح میں ’’بَسْمَلَۃ‘‘ کہتے ہیں) مکی اور کوفی طریقۂِ شمارآیات کے مطابق سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت ہےـــ اس لئے اس کے اختتام پر آیت کا نمبر شمار(۱) دیا گیا ہے۔
۱:۱:۱ اللغۃ
۱:۱:۱(۱) [بِسْمِ] =بِ +اسْم ـــ’’باء‘‘ (بِ) کے معنی اور مختلف استعمالات پر استعاذہ کی بحث میں بات ہوچکی ہےــ یہاں یہ (بِ) ’’کے ساتھ‘‘ ، ’’کی مدد سے ‘‘ یا صرف ’’سے‘‘ کے معنی میں آیا ہے۔
لفظ ’’اِسْمٌ‘‘ (جو اردو کے لفظ ’’نام‘‘ کا ہم معنی ہے) کی لغوی اصل کے بارے میں دو قول ہیں:
۱۔اکثر اہلِ لغت کے نزدیک اس کا مادہ ’’س م و‘‘ (ناقص واوی) ہے اور اس کا وزن اصلی ’’فِعْلٌ‘‘ یا ’’فُعْلٌ‘‘ ہے۔ یعنی اس کی شکل اصلی ’’سُمْوٌ‘‘ ، ’’ سِمْوٌ‘‘ یا ’’سَمَوٌ‘‘ ہے‘‘ ـــ اہل عرب اس کے آخری واو (لام کلمہ) کو گرا کر باقی لفظ کو کئی طرح بولتے ہیں۔ مثلاً سِمٌ، سُمٌ، سُمًی، اُسْمٌ اور اِسْمٌ ـ ان میں سے زیادہ عام اور مستعمل صورت ’’اِسْم‘‘ ہی ہے۔ اس طرح اب اس کا وزن استعمالی ’’اِ فْحٌ‘‘ رہ گیا ہے۔ اس مادہ (سمو) سے فعل ثلاثی مجرد سَمَا یَسْمُوْ سُمُوًّا (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’بلند ہونا‘‘، ’’رتبہ پانا‘‘ـــ اس طرح اس لفظ (اسم) کو اپنے معنوں سے یہ مناسبت ہے کہ اپنے اسم (نام) کی وجہ سے مُسَمَّی (نام والا) دوسری چیزوں سے نمایاں اور ممتاز ہو جاتا ہے۔
۲۔بعض ماہریں لغت کے نزدیک لفظ ’’اِسْم‘‘ کا مادہ ’’و س م‘‘ (مثال واوی) اور وزن اصلی ’’فِعْلٌ‘‘ یا ’’فُعْلٌ‘‘ ہی ہے۔ یعنی شکلِ اصلی ’’وِسْمٌ‘‘ یا ’’وُسْمٌ‘‘ (دونوں طرح) ہے۔ مگر یہاں اہلِ عرب ابتدائی ’’و‘‘ (فاء کلمہ) کو گرا کر اس کی جگہ ھمزہ (الف) لگا کر ’’اِسْمٌ‘‘ بولتے ہیں۔یعنی اس صورت میں اب اس کا وزن ’ ’ اِعْلٌ‘‘ رہ گیا ہے۔ اس مادے سے فعل ثلاثی مجرد وَسَم یَسِم ُوَسْمًا (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’…پر ٹھپہ لگانا‘‘ ’’…کو نشان زدہ کرنا‘‘ یعنی یہ فعل متعدی ہے۔ اور اس کے ساتھ مفعول بنفسہٖ (بغیر صلہ کے) آتا ہے۔ یعنی ’’وَسَمَہٗ‘‘ کہیں گے۔ اس لحاظ سے لفظ ’’اسْم‘‘ کے معنوں کو اپنے مسمَّی سے یہ مناسبت ہے کہ وہ اس کے لئے نشان یا علامتِ امتیاز ہے۔
گویا دونوں صورتوں میں مشترک شے ’’امتیاز‘‘ ہے۔ پہلے مادّہ میں ’’ممتاز ہونا‘‘ کا مفہوم ہے اور دوسرے میں ’’ممتاز کرنا‘‘ کاـ اور لفظ ’’اسم‘‘ (نام) میں دونوں معنی شامل ہیں۔