ثلاثی مجرد کے علاوہ اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب (تفعیل اور اِفعال)سے فعل کے مختلف صیغے اور متعدد جامد اور مشتق اسماءـ قرآن کریم میں ـ ستر کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ ان سب کا بیان اپنے موقع پر آئے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔
[عَلَی الْمَلٰئِکَۃِ]یہاں ’’علی‘‘ فعل ’’عرض‘‘ کے صلہ کے طور پر آیا ہے (اوپر دیکھئے ’’عرضھم‘‘میں عرض کے استعمال کا طریقہ) اور یہاں یہ (علٰی)پر ’’یا‘‘ کے سامنے ’’کے معنی میں ہے۔ (یعنی فرشتوں کے سامنے کیا) لفظ ’’الملائکہ‘‘ (بمعنی فرشتے یا فرشتوں) کے مادہ وغیرہ کی لغوی بحث ابھی اوپر البقرہ:۳۰یعنی ۱:۲۱:۲(۲) میں گزر چکی ہے۔
[فقال] ’’پس اس نے کہا‘‘ غالباً اب آپ کو ان کے معنی وغیرہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ فائے عاطفہ اور فعل ’’قال‘‘ کئی دفعہ آچکے ہیں۔بہر حال اگر چاہیں تو ’’فَ‘‘ کے لیے البقرہ :۲۲ یعنی ۱:۱۶:۲(۱۰)اور ’’قال‘‘کے مادہ ، باب، معنی اور تعلیل وغیرہ کے بارے میں البقرہ:۳۰ یعنی ۱:۲۱:۲(۳)کے بعد دیکھ لیجئے۔ فعل ’’قال یقول‘‘کی لغوی بحث سب سے پہلے البقرہ:۸ یعنی ۱:۷:۲(۵)میں ہوئی تھی۔
۱:۲۲:۲(۵) [اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ] کا مادہ ’’ن ب أ ‘‘ اور موجودہ وزن ’’اَفْعِلُوْنِی‘‘ہے۔ اس میں آخری ’’نی‘‘ تو یائے متکلم یعنی ضمیر منصوب ’’ی‘‘ ہے۔ جس سے پہلے والا ’’ن‘‘ نونِ وقایہ ہے۔ اس طرح اس ’’نِی‘‘ کا ترجمہ تو ہوگا ’’ مجھ کو یا مجھے‘‘ باقی فعل ’’ انبئُوا ‘‘ بر وزن ’’اَفْعِلُوْا‘‘ ہے۔
اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’ نَبَأَ ینبَأُٔ‘‘ (باب فتح سے) مختلف مصدروں (نَبْأَ ، نُبُوءًا ا اور نَبْأَۃً)کے ساتھ ـ ـ اور صلہ کے بغیر اور ’’عن‘‘ اور ’’علی‘‘ کے صلوں کے ساتھ بھی ـــ لازم متعدی مختلف معنوں کے لیے آتا ہے۔ مثلاً ’’بلند ہونا، ہلکی آواز نکالنا، …پر غالب آنا، …سے دور ہوجانا‘‘وغیرہ۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل مجرد کا کسی معنی بھی کوئی صیغۂ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ مزید فیہ کے ابواب تفعیل، اِفعال اور استفعال سے مختلف صیغے پچاس کے قریب ۔اور مختلف جامد و مشتق کلمات سو سے زائدــ مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔
- زیر مطالعہ کلمہ ’’انبئونی‘‘ اس مادہ (نبأ)سے باب اِفعال کے فعل امر معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس باب (اِفعال)سے فعل ’’اَنبأ… یُنْبِیءُ اِنباءً‘‘ کے معنی ہیں:’’…کو خبر دینا، …کو بتلانا،ــ اور اس کے لیے دو مفعول درکار ہوتے ہیں۔ جس کو خبر دی جائے اور جس چیز کی خبر دی جائے۔ عموماً دونوں مفعول بنفسہٖ (بغیر صلہ کے)آتے ہیں اور بعض دفعہ دوسرے مفعول سے پہلے ’’باء‘‘ (بِ) کا صلہ بھی آتا ہے۔ مثلا کہیں گے ’’اَنبَأہ الخبرَ‘‘ یا ’’اَنْبَأَہ بِالْخبر‘‘(اس کو خبر بتلائی)ـ قرآن مجید میں اس مادہ سے بابِ اِفعال کے کل چار جگہ آئے ہیں۔ دو جگہ فعل ماضی اور دو جگہ فعل امر کی صورت میں۔ جن میں سے ایک یہ (زیر مطالعہ)ہے۔ اس طرح اس کا ترجمہ بنتا ہے۔ ’’تم بتاؤ، یا خبر دو‘‘ــ یہ صرف صیغۂ امر (انبئوا) کا ترجمہ ’’نی‘‘ کا ترجمہ پہلے ہوچکا ہے۔
[بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ] یہ بِ+اسماء+ھؤلاء کا مرکب ہے۔ اس میں باء (بِ) تو اس فعل (انبأ) کا وہ صلہ ہے جو مفعول ثانی (جو یہاں ’’اسماء‘‘ہے)پر لگتا ہے اور جس کا قاعدہ ابھی اوپر ’’انبئونی‘‘ میں بیان ہوا ہے۔ اگر فعل ’’اَنبأَ‘‘ کا ترجمہ ’’خبر دینا یا آگاہ کرنا‘‘سے کیاجائے تو یہاں اس ’’بِ‘‘ کا ترجمہ …کی (خبر دو) یا…سے (آگاہ کرو)ہوگا۔ اور اگر اس فعل کا ترجمہ ’’بتلانا یا بتانا‘‘ سے کیاجائے تو اردو محاورہ میں اس (بِ) کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ صرف ’’بتلاؤتو ‘‘ یا ’’بتاؤ تو‘‘سے کام چل جائے گا۔ لفظ’’اسماء‘‘(ناموں)کی لغوی وضاحت ابھی اوپر اسی زیرِ مطالعہ آیت میں ہوچکی ہے۔ اور ’’ھولاء‘‘ اسم اشارہ قریب جمع (برائے مذکر و مؤنث)ہے جس کاترجمہ یہاں ’’یہ سب‘‘یا ’’ان سب‘‘یا صرف ’’ان کے‘‘ کے ساتھ ہوگا۔ اسماء ِاشارہ کے بارے میں کچھ اصولی باتیں البقرہ:۲ یعنی ۱:۱:۲(۱)میں بیان ہوئی تھیں۔