اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت ۹۲ اور۹۳

۲ : ۵۷       وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ مُّوْسٰى بِالْبَيِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ  (۹۲) وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ ۭخُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاسْمَعُوْا ۭ قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا ۤ وَاُشْرِبُوْا فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِھِمْ ۭ قُلْ بِئْسَمَا يَاْمُرُكُمْ بِهٖٓ اِيْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ  (۹۳)

۱:۵۷:۲     اللغۃ

زیر مطالعہ پورے قطعہ میں (جو دو آیات پر مشتمل ہے) لغوی تشریح کے لیے ایک بھی نیا لفظ نہیں ہے۔ تمام کلمات بلا واسطہ (یعنی اپنی موجودہ ہی شکل میں) جو اس قطعہ میں آئی ہے) یا بالواسطہ (یعنی مادہ و اشتقاق کی اصل کے لحاظ سے) پہلے گزر چکے ہیں۔ تاہم چونکہ ہمارا ایک کام یا مقصد موجودہ اردو تراجم کا تقابلی مطالعہ (لغوی و نحوی بنیاد سمجھانے کے لیے) کرنا بھی ہے اس لیے ہم ذیل میں ان آیات کو نحوی لحاظ سے موزوں اکائی بننے والے چھوٹے چھوٹے جملوں میں تقسیم کرکے ہر ایک جملہ کے کلمات کا صرف ترجمہ مع گزشتہ حوالہ (برائے طلب مزید) لکھ کر ہر ایک جملے کے آخر پر تراجم کا تقابلی مطالعہ بھی کریں گے۔

[وَلَقَدْ جَآئَ کُمْ مُوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ]

(۱)’’وَ‘‘ (اور) [۲: ۷: ۱ (۱)] ’’لَ‘‘ (ضرور) لام مفتوحہ کے لیے دیکھئے  [۲: ۴۱: ۱(۶) ] ’’قَدْ‘‘ (تحقیق۔ بے شک) دیکھئے [۱:۳۸:۲(۸)] بعض نے تو ’’لَقَدْ‘‘ کا ترجمہ ’’البتہ تحقیق‘‘ ہی کیا ہے، بعض نے دونوں (لَ +قد) میں زور اور تاکید کا مفہوم سامنے رکھتے ہوئے صرف ’’بے شک‘‘ سے ہی ترجمہ کیا ہے اور بیشتر حضرات نے اردو محاورے میں اس کا ترجمہ لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ البتہ اگلے فعل ’’جاء کم‘‘ کا ترجمہ اس طرح کردیا ہے۔ (مثلاً ’’ آچکا‘‘) کہ ’’لقد‘‘ کا مفہوم بھی اس میں آجاتا ہے۔

(۲) ’’جاء کم‘‘ اس کے آخر پر توضمیر منصوب ’’کُم‘‘ ہے جس کا یہاں ترجمہ ’’تم کو‘‘ کی بجائے ’’تمہارے پاس‘‘ کرنا پڑتا ہے کیونکہ فعل ’’جاء‘‘ (آیا) کا تقاضا یہی ہے اور فعل ’’جاء‘‘ کے مادہ (ج ی ء) اور وزن (فعل) کے معنی (آنا) وغیرہ کی وضاحت البقرہ:۷۱ [۱:۴۴:۲(۱۴)] میں کی جاچکی ہے۔

  • (۳) ’’موسٰیؑ‘‘ نام ہے ایک عظیم الشان پیغمبر کا۔ اس لفظ کی اصل کے لیے دیکھئے [۱:۳۳:۲ (۲)]

(۴) ’’بِالبیّنٰت‘‘ کی ابتدائی باء (ب) وہ صلہ ہے جو فعل ’’جاء‘‘ کو متعدی بنانے کے لیے لگتا ہے، یعنی ’’جاء‘‘= ’’ آیا ‘‘ اور ’’جاء ب. . . . .  =. . . . . .کو لایا‘‘ (دراصل ’’. . . . .کے ساتھ آیا‘‘) بیشتر مترجمین نے اس ’’ آنا‘‘ ’’. . . .کے ساتھ آنا‘‘ اور ’’لانا‘‘ تینوں کے مفہوم کو جمع کرتے ہوئے ’’جاء کم بِ. . . . .‘‘ کا ترجمہ ہی ’’لے کر آیا‘‘ (اور احتراماً) ’’لے کر آئے‘‘ کی صورت میں کیا ہے جو عمدہ ترجمہ ہے۔

  • کلمہ ’’البینات‘‘ (برسم املائی) کے مادہ (ب ی ن) اور اس سے فعل مجرد وغیرہ پر تو البقرہ:۶۸ [۱:۴۳:۲(۶)] میں بات ہوئی تھی۔ اور خود اِسی لفظ ’’بینات‘‘ (جو جمع مؤنث سالم ہے) کی ساخت او روزن و معانی پر [۱:۵۳:۲(۳)] میں بات ہوچکی ہے۔ اس کے اصل معنی تو ہیں ’’واضح اور کھلی دلیلیں‘‘ اس لیے اس کا ترجمہ ’’صریح معجزے‘‘، ’’صاف صاف دلیلیں‘‘، ’’کھلے نشان‘‘، ’’کھلی نشانیاں‘‘، ’’کھلے ہوئے معجزات‘‘ اور ’’کھلے ہوئے نشان‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے، بس لفظوں کا انتخاب اپنا اپنا ہے۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں