- اسی طرح جدید معاجم (ڈکشنریوں) میں یہ لفظ بغیر ’’ال‘‘ (لام التعریف) اور بطور اسم معرب ’’آنٌ۔ آناً۔ آنٍ‘‘ استعمال ہوا ہے اور اسے لغۃ فصحی کا استعمال ہی سمجھاگیا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’فی آنٍ واحدٍ‘‘ (بیک وقت) ’’من آنٍ الی اَخرَ‘‘ (کبھی کبھی۔ کسی کسی وقت) اور اسی مفہوم کے لیے ’’آناً بعدَ آنٍ‘‘ بھی آتا ہے اور ’’آنًا فَاَنًا‘‘ (تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد)[1] جیسے ’’وقتًا فوقتًا‘‘ ہے اور یہی ترکیب (آنًا فاناً) اردو میں بمعنی ’’فوراً ہی‘‘ استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح القاموس العصری میں ہے۔ أوانٌ = آنٌ = حینٌ = زمَنٌ‘‘ یعنی یہ سب مطلق ’’وقت‘‘ کا مفہوم رکھتے ہیں البتہ ان میں سے صرف ’’آ نٌ‘‘ ہی ایسا لفظ ہے جو بصورت ’’الآن‘‘ یعنی ’’معرف باللام اور ظرف منصوب ہوکر ’’بمعنی ’’اب، اس وقت‘‘ استعمال ہوتا ہے جیسے ’’الیومَ‘‘ بمعنی ’’آج، یہ دن‘‘ استعمال ہوتا ہے۔
- قرآنِ کریم میں ’’الآن‘‘ آٹھ جگہ آیا ہے اور ہر جگہ بغیر کسی حرف الجر کے (اصل صورت میں) بطور ظرف منصوب ہی آیا ہے۔ اور ہر جگہ اس کا اردو ترجمہ سب نے عموماً ’’اب‘‘ سے ہی کیا ہے۔
- ’’الآن‘‘ کے بارے میں یہ ساری بحث دراصل ’’الاعراب‘‘ سے ہی متعلق ہے اس لیے اسے وہیں لے جانا اور بیان کرنا چاہیے تھا تاہم چونکہ اس کا تعلق کسی جملے کی ترکیب سے نہیں بلکہ ایک لفظ کے معنی اور اسکے خاص قسم کے طریقِ استعمال سے ہے۔ اورچونکہ ہماری اس تالیف کا مقصد صرف قرآن کا ترجمہ سکھانا ہی نہیں بلکہ قرآنی کلمات کے حوالے سے عربی زبان کا سکھانا بھی ہے اور ہمارا شعار ہے: ’’عربی سیکھئے۔ قرآن کے لیے، قرآن کے ذریعے‘‘اس لیے ہم نے اس لفظ کے قدیم و جدید استعمال کی بات کی ہے۔ اور ضمناً آپ کو نحوی حضرات کی بحر علم میں شناوری (تیراکی) کی ایک جھلک بھی دکھا دی گئی ہے۔ اگرچہ کوشش میں ہم خود بھی بہاؤکے رخ کافی دور تک بہہ گئے ہیں۔
۱:۴۴:۲ (۱۴) [جِئْتَ بِالْحَقِّ] اس جملے میں سے لفظ ’’الحق‘‘ (ٹھیک بات، حق، سچ) کے بارے میں آپ البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۶)] میں پڑھ چکے ہیں۔ ’’جئت‘‘ کا مادہ ’’ج ی ء‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلْتَ‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’جَیَئْتَ‘‘ تھا۔ کسی اجوف مادہ سے (جیسے یہ ہے) فعل ماضی کے جن (آخری نو) صیغوں میں لام کلمہ ساکن ہوتا ہے تو اہل عرب وہاں حرف علت (و/ی) کو گرا دیتے ہیں اور باب ’’نصر یا کرم‘‘ کی صورت میں فاء کلمہ کو (جو یہاں ’’ج‘‘ ہے۔ ضمہ ( ـــــُــــ) اور باقی ابواب میں کسرہ (ـــــِـــــ) دے کر بولتے اور لکھتے ہیں گویا ’’جَیَئْتَ = جَاءْتَ = جَئْتَ = جِئْتَ‘‘ اب اس کا وزن ’’فِلْتَ‘‘ رہ گیا ہے۔ (قال سے قُلْتَ اور کان سے کُنْتَ اسی قاعدے سے بنتا ہے)۔
- اس مادہ (جییْ) سے فعل مجرد ’’جائَ یَجِیْٔءُ (دراصل جَیَأَ یَجْیِیُٔ)مَجِیْئًا‘‘ (ضرب سے) آتا ہے اور اسکے بنیادی معنی ہیں:’’ آنا۔ جانا‘‘۔ پھر اس سے یہ کبھی ’’واقع ہونا/ ہوجانا‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’جائَ الامرُ‘‘ (بات واقع ہوگئی) ۔ قرآن کریم میں ’’اذا/ لمَّا جاء امرُنا‘‘ متعدد جگہ آیا ہے۔ یہ (جاء یجییٔ) فعل تو لازم ہے مگر اس کے لیے مفعول استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’وَ لَقَدۡ جَآءَ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ النُّذُرُ ‘‘(القمر:۴۱) یعنی ’’ آل فرعون کے پاس ڈرانے والے آئے‘‘ ایسے موقع پر عربی میں ’’جاء عندہ‘‘ کہنا بالکل غلط ہے۔ قرآن کریم میں یہ فعل منصوب ضمیروں کے ساتھ (جاءہ۔ جائکم۔ جئتَنا۔ جئتمونا) بکثرت استعمال ہوا ہے۔
_____________________________
[1] دیکھئے Hans Wehr تحت مادہ ’’اون‘‘۔ یہ ترکیب اور ’’آنٌ‘‘ کا بطور معرب اور نکرہ (بغیر ال) استعمال قدیم کتب و نحو میں مذکور نہیں ہے۔