اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

(۵) ’’مَرْیَم‘‘ یہ بھی عجمی یعنی غیر عربی لفظ ہے، اس لیے ممنوع  الصرف (غیر منصرف) ہے۔ یہ حضرت عیسیؑ کی والدہ کا نام (علم) ہے۔ اس کا کسی عربی مادے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی سریانی لفظ ہے اور اس کے معنی ’’بلند مرتبہ والی‘‘ ہے (دیکھئے ’’المنجد‘‘)

(۶) ’’الْبَیِّنَات‘‘ (یہ اس کا رسم املائی ہے، رسم عثمانی پر آگے بات ہوگی) جمع مؤنث سالم کا صیغہ ہے۔ اس کا واحد ’’البَیِّنَۃُ‘‘ ہے جس کا مادہ ’’ب ی ن‘‘ اور وزن اصلی (لام تعریف نکال کر ’’فَیْعِلَۃٌ‘‘۔ جس طرح اس کے مذکر وزن (فَیْعِل) پر ’’ص و ب‘‘ سے ’’صَیِّب‘‘ بنا تھا (دیکھئے البقرہ: ۱۹ [۱:۱۴:۲ (۲)] میں) اسی طرح اس مادہ سے لفظ ’’بَیِّن‘‘ بمعنی واضح۔ صاف ظاہر) بنتا ہے۔ پھر اس سے لفظ ’’بَیِّنَۃٌ‘‘ بنتا ہے جس میں آخری ’’ۃ  ‘‘تانیث سے زیادہ مبالغہ کے لیے ہے (اگرچہ اس کی وجہ سے لفظ مؤنث قیاسی بھی ہے) یعنی بہت زیادہ واضح اور صاف ظاہر چیز۔ یوں ’’البینات‘‘  کا ترجمہ ’’ظاہر معجزے، صریح معجزے، واضح دلائل، کھلے کھلے معجزے، کھلی نشانیاں، کھلے نشانات اور روشن نشانات‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔

  • غور کیجئے تو ان تراجم میں ’’معجزے، دلائل، اور نشانات‘‘ تو اصل پر اضافہ ہے ’’بینۃ‘‘ یا ’’بینات‘‘ کا ترجمہ تو ’’ظاہر، صریح، کھلے اور روشن‘‘ ہی بنتا ہے۔ اِس اضافے کی ضرورت یوں پڑی کہ بنیادی طور پر ’’بَیِّنَۃٌ‘‘ (یا اس کی جمع ’’بیّنات‘‘) تو اسم صفت ہے جس کے ساتھ موصوف محذوف ہے، اس لیے اردو مترجمین نے اس کا ترجمہ اس محذوف موصوف کے ساتھ کیا ہے۔ بعض صفات (خصوصاً جب وہ معرف باللام بھی ہوں) اتنی واضح ہوتی ہیں کہ ان کے موصوف کو ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی، جیسے ’’عملوا الصالحات ‘‘ میں در اصل ’’الاعمال الصالحات‘‘ ہی مراد ہوتے ہیں۔ اسی طرح ’’البیّنۃ‘‘ یا ’’البینات‘‘ کا موصوف ’’ آیات، معجزے، دلائل اور نشان‘‘ ہی بن سکتے ہیں۔ اس مادہ ’’بین‘‘ سے فعل مجرد وغیرہ پر لغوی بحث البقرہ: ۶۸ [۱:۴۳:۲ (۶)] میں کلمہ ’’یُبَیِّن‘‘ کے ضمن میں ہوچکی ہے۔
  • اس طرح اس پوری عبارت ’’وآتینا عیسی ابن مریم البینات‘‘ کا لفظی ترجمہ بنا ’’اور ہم نے دئیے عیسٰیؑ بن مریمؑ کے بیٹے کو واضح (دلائل)‘‘ اس کی بامحاورہ صورتیں ’’عیسیٰؑ ابن مریمؑ کو دئیے / عطا کیے/بخشے/ عطا فرمائے‘‘ ہیں اور آخری لفظ (البینات) کے تراجم مع وجہ ابھی اوپر بیان ہوئے ہیں۔

۱:۵۳:۲ (۳)     [وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ] اس عبارت میں بھی کل چھ ہی کلمات (اسم، فعل، حرف) ہیں۔ یعنی یہ ’’وَ اَیَّدْنَا ہ بِ روح القدس‘‘کا مجموعہ ہے۔ اس میں نئے لفظ صرف ’’اَیَّدْنَا‘‘ اور ’’رُوح‘‘ ہیں۔ ’’القدس‘‘ کے مادہ سے پہلے بحث ہوچکی ہے۔ ’’ہ‘‘ تو ضمیر منصوب بمعنی ’’اس کو‘‘ ہے اور ’’وَ‘‘ حرف عطف اور ’’ باء‘‘ (بِ) حرف الجرّ ہے اور ان کے استعمال پر بھی پہلے کئی جگہ بات ہوئی ہے۔ بہر حال ذیل میں اس عبارت کے ایک ایک کلمہ پر بات کی جاتی ہے:

(۱) ’’وَ‘‘ عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے۔ مزید بحث کے لیے دیکھئے [۱:۴:۱ (۳)] اور [۱:۷:۲ (۱)]

(۲) ’’اَیَّدْنَاہُ‘‘  (اس میں آخری ’’ ہ ‘‘ ضمیر منصوب بمعنئ ’’اس کو‘‘ ہے اور لفظ ’’اَیَّدْنَا‘‘ یہاں سمجھانے کے لیے برسم املائی لکھا گیا ہے، (رسم عثمانی پر ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی) ’’اَیَّدْنَا‘‘ کا مادہ ’’ا ی د‘‘ اور وزن ’’فَعَّلْنَا‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’ آدَ  یَئِیْدُ  اَیْدًا‘‘ (مثل باعَ یبیع بَیْعًا) باب ضرب سے آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’قوی اور مضبوط ہونا‘‘ اور اس کا مصدر ’’اَیْدٌ‘‘ مضبوطی اور قوّت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے (یعنی بطور اسم) اس فعل مجرد سے کوئی صیغۂ فعل قرآن کریم میں نہیں آیا، البتہ لفظ ’’اَیْد‘‘ ایک دو جگہ آیا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں