اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

(۴) ’’رَبَّکَ‘‘ جو ’’رب ‘‘+ ’’کَ‘‘ ہے۔ لفظ ’’رب‘‘ کی لغوی تشریح الفاتحہ:۲ [۱:۲:۱ (۳)]میں ہوچکی ہے۔ یہاں ’’رَبَّک‘‘ (جیسا کہ آگے ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگا) فعل ’’ادع لنا‘‘ کے مفعول کے طور پر آیا ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ (اس فعل کی مناسبت سے) ’’اپنے رب سے، اپنے رب کو، اپنے پروردگار سے‘‘ اور ’’اپنے مالک سے‘‘ کی صورت میں کیاگیا ہے۔

  • مندرجہ بالا وضاحت کے بعد اب آپ اس پورے جملے (قالوا ادع لنا ربک) کا مکمل ترجمہ اور مختلف تراجم کا باہمی موازنہ کرسکتے ہیں۔

۱:۴۳:۲ (۶)     [یُبَیِّنْ لَّنَا] اس کے آخری حصے (لَنا) پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے یعنی اس کا ترجمہ ’’ہمارے لیے/ واسطے‘‘ ہے۔ اور ’’یُبَیِّنْ‘‘ کا مادہ ’’ب ی ن‘‘ اور وزن ’’یُفَعِّلْ‘‘ ہے یعنی یہ اس فعل کی مجزوم صورت ہے (جس کی وجہ سے ’’الاعراب‘‘ میں بحث ہوگی)

  • اس مادہ (بین) سے فعل مجرد باب ضرب سے آتا ہے اور مصدر کے فرق کے ساتھ اس کے بنیادی طور پر دو معنی ہیں (۱) ’’بان یَبِیْن بَیْنًا‘‘ کے معنی ہیں ’’دور ہوجانا، الگ ہو جانا، جدا ہوجانا‘‘۔ اور اسی سے طلاق کی ایک قسم کے لیے فقہی اصطلاح ’’بائن‘‘ بنی ہے۔ (۲) ’’بَان یبین بیانًا‘‘ کے معنی ہیں ’’واضح ہوجانا اور واضح کردینا‘‘ یعنی یہ لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے کہیں گے ’’بانَ الشَییُٔ‘‘ (چیز واضح ہوگئی) دوسرے معنی کے لحاظ سے کہیں گے ’’بانَ الشیَٔ‘‘ (اس نے چیز کو واضح کردیا) واضح کر دینے والے کو ’’بائِن‘‘ (اسم الفاعل) بھی کہتے ہیں اور ’’بَیِّنٌ‘‘ (اسم صفت) بھی۔ اور اسی سے مونث ’’بَیِّنَۃ‘‘ بنتا ہے۔ جس کے بنیادی معنی تو ہیں ’’خوب وضاحت کردینے والی چیز‘‘۔ اور اسی کا ترجمہ ’’روشن دلیل، واضح ثبوت اور گواہی‘‘ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
  • ان کے علاوہ یہ فعل مجرد (بان یبین) بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس سے فعل مجرد کا کوئی صیغہ (کسی بھی معنی میں) کہیں نہیں آیا۔ البتہ دوسرے معنی (واضح کردینا یا ہوجانا) کی بھی متعددی صورت (واضح کرنا) سے ماخوذ کلمہ ’’ بَیِّنٌ‘‘ تو صرف ایک جگہ (الکہف:۱۵) آیا ہے مگر اس کا صیغہ مونث ’’بیّنۃ‘‘ مختلف صورتوں (واحد جمع معرفہ نکرہ وغیرہ) میں بکثرت وارد ہوا ہے۔ اور اسی (فعل مجرد) کا ایک مصدر ’’ بَیَانٌ ‘‘ تین جگہ اور ایک دوسرا مصدر ’’ تِبْيَان‘‘ ایک جگہ (النحل:۸۹) آیا ہے۔ ان تمام کلمات پر اپنے اپنے موقع پر بات ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اسی مادہ سے ماخوذ ایک لفظ ’’بَیْن‘‘ (جوظرف ہے) کے معنی واستعمال پر البقرہ:۶۶ [۱:۴۲:۲ (۵)] میں بات ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ اس مادہ سے مزید فیہ کے کچھ افعال بھی قرآن کریم میں آئے ہیں۔
  • زیر مطالعہ لفظ ’’یُبَیّن‘‘ اس مادہ (بین) سے باب تفعیل کے فعل مضارع مجزوم کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے (’’جزم ‘‘کی وجہ الاعراب میں بیان ہوگی) اس باب (تفعیل) سے اس کے فعل ’’ بَیَّن یُبَیِّن تَبْیِینًا ‘‘ کے بھی دو معنی ہیں (۱) واضح کرنا اور (۲) واضح ہونا یعنی یہ فعل بھی ثلاثی مجرد کی طرح لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح ’’ یُبَیِّنْ لَنَا ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’وہ واضح کردے ہمارے لیے‘‘ اور اسی کو بامحاورہ بنانے کے لیے ’’بیان کردے ہمارے واسطے، بیان فرمادے ہم کو‘‘ کی صورت دی گئی ہے۔ جب کہ بعض نے ’’ہم کو بتا دے/ بتلائے/ بتائے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے فعل ’’بَیَّن‘‘ میں ’’واضح کردینے والے ‘‘معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’ہم کو اچھی طرح سمجھا دے سے‘‘ سے کیا ہے۔  جو بہت عمدہ وضاحتی ترجمہ ہے۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں