- یہ دونوں فعل (مجرد یا مفاعلہ سے) بطور فعل متعدی اور بغیر کِسی صلہ کے استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی ’’خدَعَہ‘‘ اور ’’خادَعَہٗ‘‘ کہیں گے اور جیسا کہ آپ اسی آیت میں ملاحظہ کریں گے ( اور ابھی آگے بیان ’’اعراب ‘‘ میں اس کی وضاحت آرہی ہے)۔ قرآن کریم کےاردو مترجمین نے ’’ یخادعون‘‘ کا ترجمہ ’’فریب دیتے ۱؎ ، دغابازی کرتے۲؎ ، چالبازی کرتے۳ ؎، دھوکا دیتے ۴؎ ، فریب دیا چاہتے ۵؎ ، چکماد یتے ۶ ؎ اور دھوکا دیناچاہتے (ہیں)۷؎ ‘‘سے کیا ہے۔آپ نے محسوس کر لیا ہوگا کہ مذکورہ تراجم میں سے بعض میں ’’دھوکہ دینے کی کوشش کرنے‘‘ کا مفہوم موجود ہے۔مثلاً ۳؎،و ۵ ؎،و ۷؎ میں۔
[اللّٰہ] کے مادہ اور اشتقاق کی بحث گُزر چُکی ہے۔ دیکھئے ۱:۱:۱(۲)
[وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا] یہ وَ+الذین +آمنوا کا مرکّب ہے۔ ان تینوں کلمات کے معنی وغیرہ پر بات ہوچکی ہے۔ ’’وَ‘‘ (جو یہاں عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے) کے لیے دیکھئے ۱:۴:۱(۳)
’’ الَّذِین‘‘ کے معنی و استعمال کے لیے دیکھئے:۱:۶:۱(۱)یہاں اس کے معنی ہیں ’’وہ لو گ جو ‘‘
"آمَنوا‘‘ جو مادہ ’’ا م ن‘‘سے باب اِفعال فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے (یعنی وہ ایمان لائے) اس کے معنی وغیرہ کے لیے دیکھئے ۱:۲:۲(۱)
۱:۸:۲(۲) [وَمَا يَخْدَعُوْنَ] یہ وَ+مَا+یَخْدَعُوْنَ کا مرکّب ہے۔ اس میں ’’وَ‘‘عاطفہ بھی ہوسکتی ہے اور حالیہ بھی بہر حال اردو ترجمہ ’’اور‘‘ سے کیا گیاہے اور اردو میں یہی ’’اور‘‘ حالیہ (بمعنی ’’حالانکہ‘‘) بھی استعمال ہوتا ہےـــ اس ’’وَ‘‘ کے استعمال پر مفصل بات ہوچکی ہے دیکھئے ۱:۴:۱(۳)
’’مَا‘‘یہاں نافیہ ہے جو فعل (یخدعون) پر داخل ہوکر اس میں نفی کے معنی پیدا کرتا ہے۔ یعنی ’’وہ دھوکا نہیں دیتے‘‘ـ مَا کے مختلف معانی اور استعمالات پر(۱:۲:۲(۵) میں بات گزر چکی ہے۔
’’ يَخْدَعُوْن‘‘کا مادہ ’’خ د ع‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُوْنَ‘‘ ہے۔ یہ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد (باب فتح سے) کے فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے، جس کے معنی وغیرہ پر ابھی اوپر بحث ہوچکی ہےـــ۱:۸:۲(۱)میں۔
[اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ] یہ اِلاَّ +اَنْفُس+ھُم کا مرکّب ہے آخری ضمیر مجرور (ھم) تو یہاں ’’ان کے‘‘ یا ’’ان کی‘ ‘ یا ’’اپنی‘‘ کے معنی میں آیا ہے۔ ’’ اِلَّا ‘‘ اور ’’ انفس‘‘ کے معنی و استعمال کی تفصیل یوں ہے۔
۲:۸:۱(۳) ’’ اِلَّا ‘‘ حرف ہے جو زیادہ تر استثناء کے لیے آتا ہے اور اس کے استعمال کی چند صورتیں ہیں:۔
۱۔’’اِ لاَّ استثنائیہ‘‘جس کے بعد والی عبارت یا اسم کو مستثنیٰ (سابقہ یعنی اِلَّا‘‘سے پہلے والی عبارت کے حکم سے نکالا ہوا) کہتے ہیں۔ اس ماقبل یعنی اِلَّا سے پہلے آنے والی عبارت (یا اسم) کو مستثنیٰ مِنْہ کہتے ہیں (یعنی وہ جس کے حکم سے (کسی کو) نکال دیا گیا)۔ اس ’’ اِلاَّ ‘‘کے استعمال اور خصوصا مشتثنیٰ کے اِعراب کے کچھ قواعد ہیں۔ اور موقع استعمال اور طریقہ استعمال کے مطابق اسے (مستثنیٰ کو) متصل، منقطع، مقدّم اور مفَرّغ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اگر ’’مستثنیٰ بالَّا‘‘ کے قواعد ذہن میں مستحضر نہ ہوں تو نحو کی کسی کتاب میں ان پر ایک نظر ڈال لیجئے۔ عموماً مستثنیٰ منصوب ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا ذکر منصوبات کے ضمن میں ہی ملے گا۔