اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

تاہم اہلِ علم کی اکثریت پہلے قول (’’سمو‘‘والے ) کو ترجیح دیتی ہے۔ اور اسکی ایک وجہ انکے نزدیک یہ ہے کہ ’’اسم‘‘ کی جمع ’’اَسْمَاءٌ‘‘ آتی ہے جس کا وزن ’’اَفْعَال‘‘ (اور شکل اصلی ’’اَسْمَاوٌ‘‘) ہے۔ اگر اس کامادّہ ’’وسم‘‘ ہوتا تو اس کی جمع ’’اَوْسَام‘‘ آتی۔

        دونوں صورتوں میں ’’اسم‘‘  کے شروع کا ھمزہ (بصورت الف) اصلی (یعنی مادّہ کا) نہیں ہے۔ بلکہ صرف ھمزۃ الوصل ہے جو حرفِ ساکن (’’سْ‘‘) سے پہلے ضرورتاً  (برائے تلفّظ) لگایا گیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ کسی ماقبل (اپنے سے پہلے) حرف کے ساتھ وصل (ملنے) کی صورت میں یہ تلفّظ سے ساقط (Silent) ہوجاتا ہے۔

۱:۱:۱ (۲)     [اللّٰہِ]عربی زبان میں یہ لفظ (جسے احتراماً  ’’اسم جلالت‘‘ کہتے ہیں) پوری کائنات کے خالق و مالک کے نام کے طور پر قبل از اسلام دور میں بھی (بلکہ زمانہ ہائے دراز سے) استعمال ہوتا تھا۔ پھر قرآن و حدیث میں بھی یہی نام استعمال ہوا ہےــــ اس لئے اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں- بلکہ جائز بھی نہیں  ـ کسی اور زبان کاـ ان ہی معنوں کے لئے مستعمل  ـ کوئی لفظ بھی اس کا صحیح بدل نہیں ہوسکتا۔ مثلاً فارسی کا ’’خدا‘‘، ہندی کا ’’پرماتما‘‘ یا انگریزی کا ’’GOD‘‘ وغیرہ۔ مسلمانوں کو ہمیشہ اسمِ جلالت (’’اللّٰہ‘‘) ہی کے استعمال کو ترجیح دینی چاہئے۔ یہ اسلامی ثقافت کا نشا ن ہے۔

        فارسی یا پہلوی زبان کا لفظ’’خدا ‘‘ اب بہت سے مشرقی اسلامی ملکوں میں’’اللّٰہ‘‘کے ہم معنی بلکہ مترادف کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ عام زبان میں اس کا استعمال درست بھی سمجھا جائے تب بھی دینی تحریروں میں  ـ اور خصوصاً قرآن و حدیث سے ترجمہ کرتے وقت اصل لفظ ’’ اللّٰہ‘‘ کا استعمال ہی مناسب ہے۔ بعض جاہلوں نے ’’خدا‘‘ سے بھی آگے بڑھ کر ’’اللہ‘‘ کے لئے قانونِ خداوندی  کا لفظ استعمال کرڈالا ہے۔ دراصل تو اس کے پیچھے ذات الٰہی (Personal God) کے انکار کے عقیدہ کار فرماہے۔ تاہم ’’خدا‘‘ کی بجائے ’’خداوند‘‘ کا لفظ استعمال کرنا تو صریح غلطی بلکہ جہالت ہے۔ اس کے تو معنی ہی ’’خدا جیسا‘‘ کے ہیں۔ اور اسی لئے مسیحی اسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

        لفظ ’’اللّٰہ‘‘ کی لغوی اصل کے بارے میں بیشتر اہلِ علم کی رائے تو یہی ہے کہ یہ دراصل ’’اَلاِلٰہ‘‘ (اَلْ اِلٰہ) تھا۔ یعنی ’’اِلٰہٌ ‘‘ کو معرّف بالّلام کر لیاگیا۔ پھر کثرت استعمال کی بناء پر درمیانی ھمزہ ساقط کر دیا گیا اور دونوں ’’لام‘‘ مدغم ہوگئے اور یوں ’’تشدید‘‘ پیدا ہوئی۔ اور یہ تشدید ـ بلکہ تفخیم (  ُپر کرکے پڑھنا) کے ساتھ تشدید ـ اسمِ جلالت کی خصوصیت ہے۔ اور ’’اَلْ‘‘ کو بھی تعظیماً اس اسم کا مستقل حصہ بنا دیا گیا ہے جو کسی صورت میں اس سے الگ نہیں ہوتا۔ اور اس کا معاملہ دوسرے معرف باللّام اسماء سے مختلف ہے۔ مثلاً نداء میں اسے بالکل ہمزہ قطعی سمجھا جاتا ہے۔  یعنی ’’یَااَللّٰہ‘‘ کہیں گےاس نظریہ کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عربی جاہلی اشعار میں’ ’ اَ لْاِ لٰہ‘‘ کی ترکیب استعمال ہوئی ہے [1]

        اس طرح لفظ’’ اللّٰہ ‘‘کے معنی سمجھنے کے لئے لفظ ’’اِلٰہ‘‘ کے مادہ، اشتقاقِ لغوی اور بنیادی معنی کو جاننا ضروری ہے۔ لفظ ’’اِلٰہ‘‘ کے مادہ اور اس کی لغوی اصل کے بارے میں اہلِ لغت و نحو کی آراء و اقوال کا خلاصہ یہ ہے:

_________________________

[1] تفصیل کے لئے دیکھئے زمخشری (کشاف) ج ۱ ص ۳۵‘ روح المعانی ج ۱ ص : ۵۵

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں