اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ  آیت نمبر ۳

۲:۲

  الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾

 ۱:۲:۲ اللغۃ

          [اَلَّذِیْنَ] اسم موصول برائے جمع مذکّر ہے جس کا اردو ترجمہ ’’جو کہ ‘‘ جنہوں نے کہ ’’وہ لوگ جو کہ ‘‘ وغیرہ سے کیا جاسکتا ہے۔ اسماء موصولہ پر سورۃ الفاتحہ آیت نمبر۷ (۱:۶:۱) میں بات ہوچکی ہے۔ یا ضرورت ہو تو نحو کی کسی کتاب میں برائے استحضار ’’اسم موصول ‘‘ کی بحث دیکھ لیجئے۔

۱:۲:۲: (۱)     [یُؤْمِنُوْنَ] کا مادہ ’’ا م ن‘‘ اور وزن ’’ یُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے باب افعال کے فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکّر غائب ہے۔

اس مادہ ’’امن‘‘ سے فعل ثلاثی مجرد (۱)أمِنَ یأْمَن أَمْنًا (باب سمِع سے) بمعنی ’’امن میں ہونا، امن پانا، چین پانا، خاطر جمع ہونا، بے خوف ہونا‘‘ وغیرہ ہمیشہ لازم اور بغیر صلہ کے آتا ہے۔ اور (۲)أمِنَ۔۔۔ یأْمَن أَمْنًا(سَمِعَ سے ہی)بمعنی ’’ـ  سے بے فکر ہونا، ـــ کی طرف سے مطمئن ہونا، ـ  سے بے خطرہونا، ـ سے امن میں رہنا‘‘ وغیرہ بطور فعل متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے یعنی اس کا مفعول بنفسہٖ آتا ہے (أَمِنَہٗ) اور (۳)أمِن ـــ یأمَن اَمَانَۃً (سمع سے ہی) بمعنی ’’ـ  پر اعتبار کرنا، ـــ کو امین بنانا، ـ کے پاس امانت رکھنا‘‘ آتاہے۔ اس صورت میں بھی یہ متعدی اور بغیر صلہ کے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی’’اَمِنَہٗ ‘‘ہی کہیں گے۔ (صرف مصدر میں فرق پڑتا ہے۔) البتہ جو چیز امانت رکھی جائے یا جس چیز کے بارے میں اعتبار کیاجائے اس سے پہلے’’علی‘‘ کا صلہ آتا ہے۔ مثلاً کہیں گے ’’اَمِنَ زیدًا علی ـــ (کذا)‘‘ قرآن کریم میں یہ فعل ثلاثی مجرد مذکورہ بالا تینوں معنی میں استعمال ہوا ہے اور فعل مجرد سے ہی افعال اور اسماء مشتقہ کے چونسٹھ (۶۴) مختلف المعنی صیغے وارد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بابِ افعال سے بکثرت اور باب افتعال سے ایک آدھ صیغہ آیاہے۔ ان کا بیان اپنی اپنی جگہ آئے گا۔

            جیسا کہ ابھی بیان ہوا ہے لفظ ’’ یُؤْمِنُوْنَ‘‘ بھی اس مادہ سے باب افعال کا صیغۂ مضارع ہے۔ اس باب سے فعل آمَن ۔۔ یُؤْمِنُ اِیمانًا۔جب ’’با‘‘(بِ)کے صلہ کے ساتھ آئے [یعنی آمَنَ  بِ ـــ] تو اس کے معنی : ’’ـــ پر ایمان لانا، ـــ پر ایمان رکھنا، ـ پر یقین کرنا یا لانا‘‘ ہوتے ہیں یعنی اس صورت میں عربی ’’با‘‘ (بِ) کا لفظی ترجمہ (۔۔۔کے ساتھ) کی بجائے اردو محاورہ کے مطابق (۔۔۔پر) سے کیا جاتا ہے۔[مگر عربی میں ’’آمَنَ علی ـــ‘‘ کہنا بالکل غلط ہے]لفظ ’’ایمان‘‘ (جو اس فعل کا مصدر ہے) اپنے اصل عربی بلکہ اصطلاحی اسلامی معنی کے ساتھ اردو میں بھی بطور اصطلاح مستعمل ہے۔[1] عربی زبان کے متعدد کلمات اسی طرح کسی اردو مصدر کے ساتھ ملا کر اپنے اصل عربی (لغوی) معنی میں استعمال ہوتے ہیں مثلاً ’’ایمان‘‘ لانا، ’’مطمئن ‘‘ہونا، ’’اعتراف ‘‘ کرنا وغیرہ۔ کیونکہ ان کلمات کے اصل عربی معنی اردو میں متعارف اور متد اول ہیں۔

______________________________

 [1] البتہ اس لفظ کے معانی کی وسعت، اہمیت اور اس کے تقاضوں کے (تسلسل) بیان کے علاوہ دوسرے قریب المعنی الفاظ مثل اسلام ، تصدیق وغیرہ سے اس کے فرق کی وضاحت وغیرہ کے لیے مستند کتب ِ تفسیر و عقائد کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں