اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ  البقرہ آیت نمبر۹ اور ۱۰

۸:۲      یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ؕ﴿۹﴾فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ ۬ۙ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ ﴿۱۰﴾

۱:۸:۲      اللغۃ

۱:۸:۲(۱)     [یُخَادِعُونَ] اس لفظ (جو عام عربی املاء میں اسی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے عثمانی رسم پر بات آگے بحث الرسم میں آئے گی) کا مادہ ’’خ د ع‘‘ اور وزن ’’یُفَاعِلُونَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’ خدَع… یخدَع خَدْعًا ‘‘(باب فتح سے) آتا ہے اور اس کے ایک بنیادی معنی ’’کپڑے کو دوہرا کرکے اس کا ایک حصہ چھپا لینا‘‘ ہیں۔ پھر اس سے یہ فعل ’’…کو دھوکا دینا، …کو فریب دینا، …کو دغادینا، …کو چکما دینا اور …کے ساتھ چالبازی کرنا‘‘ کے معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے (مندرجہ بالا تمام معانی قرآن کریم کے مختلف اردو مترجمین نے استعمال کئے ہیں)۔ اور اس فعل کے بعض دوسرے معانی اور استعمالات میں بھی یہ معنی جھلکتے محسوس ہوتے ہیں مثلاً ’’بازار کا مندا ہونا‘‘، ’’بارش کا کم ہونا‘‘ یا ’’لعاب ِدہن کا خشک ہونا‘‘ وغیرہ میں ـــ [2] تاہم قرآن کریم میں یہ فعل ان مؤخر الذکر معنوں میں سے کسی کے لیے استعمال نہیں ہوا۔ قرآن کریم میں اس فعل ثلاثی مجرد سے فعل مضارع کے صرف دو صیغے (دو جگہ) آئے ہیں اور اسم فاعل کا صیغہ صرف ایک جگہ آیا ہےــ اور تینوں جگہ یہ صرف ’’دھوکا، فریب اور دغا‘‘ والے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

’’ یُخَادِعون‘‘ اس مادہ (خدع) سے باب مُفاعلہ کا فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ خِداع یا مُخادَعَۃ (جو اس مادہ سے باب مفاعلہ ’’خادَع یخادِع‘‘ کے مصدر ہیں)ـــ کو اہلِ لغت ثلاثی مجرّد فعل (جس کے معنی اوپر بیان ہوئے ہیں) کے ہم معنی ہی قرار دیتے ہیں۔ یعنی اس میں دو طرفہ فعل (بین اثنین) مراد لینا ( جو عموماً باب مفاعلہ کی ایک خصوصیت بیان کی جاتی ہے) لازمی نہیں ـ اس لئے کہ باب مفاعلہ میں ’’یک طرفہ‘‘ (بغیر مشارکت) افعال کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً ’’عاقَب اللِصّ‘‘ (چور کو سزادی) یا ’’عافاہ اللّٰہ‘‘ (اللہ نے اسے عافیت دی) وغیرہ میں ـ  البتہ بعض اہل لغت نے اس مادہ (خدع) سے باب مفاعلہ اور مجرد کے معنوں میں یہ باریک فرق بیان کیا ہے[3] کہ مخادعۃ یا خداع (جو باب مفاعلہ کے مصدر ہیں) کے معنی ہیں ’’کسی کو دھوکا دینے کی ناکام کوشش کرنا‘‘ جب کہ خَدْعٌ (جو ثلاثی مجرد کا مصدر ہے) کے معنی ہیں ’’کسی کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوجانا‘‘ـــ اور بعض نے خِداع (مفاعلہ) کے معنی ’’بکثرت اور بار بار دھوکا دینے کی کوشش کرنا‘‘ بھی بیان کئے ہیں ـــ اور اس مادہ (خدع) سے فعل ثلاثی مجرد اور بابِ مفاعلہ کے معنوں کے فرق کی یہ بات ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ ابھی آگےـ  اسی آیت میں ـــلفظ ’’ یَخْدَعُوْنَ‘‘ (ثلاثی مجرد سے) بھی آرہا ہے (بروایت حفص)ـــ

___________________________________

 [1]  صرف ’’شامی‘‘ گنتی کے مطابق ’’الیم‘‘ پر آیت ختم ہوتی ہے ۔ جس کو ۵ کے نشان سے ظاہر کیا گیا ہے۔ باقی کسی گنتی کے مطابق یہاں ’’الیم‘‘ پر آیت نہیں ہے۔

[2]   دیکھئے مفرداتِ راغب یا کوئی بھی اچھی ڈکشنری

[3]    مثلاً  LANE کی مدّ القاموس اور اقرب الموارد تحت مادۃ ’’خدع‘‘ نیز قاموس القرآن زیر مادۃ۔

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں