۴۔ الف ماقبل مفتوح میں ماقبل پر ہر جگہ فتحہ (ــــــَــــ) ڈالتے ہیں مگر ایران میں یہ بھی کھڑی زبر (ـــــٰــــ) کی صورت میں لکھتے ہیں یعنی ’’نَا‘‘ کو ’’نٰا‘‘ لکھتے ہیں۔
۵۔ ہمزۃ الوصل جب آیت کی ابتداء میں ہو تو اسے پڑھنے کے لئے کسی حرکت کی ضرورت ہوتی ہے۔ (مثلاً ’’اِھدنا‘‘ میں یہ ہمزہ کسرہ کے ساتھ پڑھا جاتا ہے) عرب اور عام افریقی ملکوں میں اس ہمزہ پر صرف علامت وصل #) (50لکھ دی جاتی ہے مگر اس کی حرکت کو غالباً اپنی عربی دانی کے زور پر متعین کرتے ہیں۔ مشرقی ملکوں میں ایسے ہمزۃ الوصل پر متعلقہ حرکت (ــــــِــــ ، ــــــَــــ ، ـــــُـــــ) ڈالی جاتی ہے۔ مثلاً یہاں ’’اِھْدِنا‘‘ کے ہمزۃ الوصل کے نیچے کسرہ (ــــــِــــ) ڈالی جاتی ہے۔ لیبیا میں اس قسم کی حرکت کے لئے اس الف کے نیچے درمیاں میں یا اوپر ایک باریک مجوف (اندر سے خالی) گول نقطہ ڈالتے ہیں ۔ یعنی وہ لوگ(51#) سے ظاہر کرتے ہیں۔
صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
۱:۶:۱ اللغۃ
[صِرَاطَ] اس لفظ پر مکمل بحث ابھی(۱:۵:۱(۳) اوپر گزر چکی ہے۔
۱:۶:۱(۱) [اَلَّذِیْنَ] یہ جمع مذکر کے لئے اسم موصول ہے۔ بمعنی ’’وہ لوگ جو کہ‘‘ ـــ اسم موصول کے بعد ایک جملہ آتا ہے۔ جسے ’’صِلَہ‘‘ کہتے ہیں۔ اسم موصول اپنے صلہ کے ساتھ مل کر جملہ کا کوئی جزء (مبتداء، خبر، فاعل و مفعول وغیرہ) بنتا ہے۔ اسماء موصولہ کو کسی مادہ سے مشتق یا ما خوذ قرار نہیں دیا جاتا ۔ اور اسی لئے اسے معاجم (ڈکشنریوں) میں بیان ہی نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ عربی پڑھنے والا اسماء موصولہ کے بارے میں سب کچھ کتب نحو میں پڑھ چکا ہوتا ہے۔ [بعض ڈکشنریوں (مثلاً المنجد) میں ’’الذی‘‘ اور اس کے ساتھی اسماء موصولہ کا ذکر ’’الذ‘‘کی ترتیب میں کیا گیا ہے] اگرچہ ہم اس مفروضہ پر چل رہے ہیں کہ آپ اسماء موصولہ کے بارے میں پڑھ چکے ہیں۔ تاہم محض اعادہ اور یاد دہانی کے لئے یہاں ان کے بارے میں ذرا وضاحت کی جاتی ہے۔
- اسماء موصولہ کی کثیر الاستعمال شکلیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ واحد مذکر کیلئے ’’اَلَّذِیْ‘‘ جو مبنی ہے اور اسکے معنی حسب موقع ’’جو کہ ‘‘ ’’جس نے کہ ‘‘، ’’جس کو کہ‘‘ اور ’’جس کا کہ‘‘ کر لئے جاتے ہیں۔
۲۔ تثنیہ مذکر کیلئے ’’اَللّذانِ‘‘ جس کی نصبی اور جری صورت ’’ اَللّذَیْن‘‘ ہوتی ہے اور معنی ’’وہ دو جو کہ ، جن کو کہ یا جن کا کہ‘‘ ہوں گے۔