اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۵

۴:۲ 

اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾

۴:۲  :۱       اللغۃ

            [اُولٰٓئِکَ] اسم اشارہ بعید برائے جمع مذکر و مؤنث (بمعنی ’’وہ سب‘‘) اس کی اصل ’’اُولَائِ‘‘ ہے۔ پھر اشارہ قریب کے لئے اس سے پہلے ’’ھا‘‘ لگا کر ’’ھٰؤلَائِ‘‘ بنالیتے ہیں جو بمعنی ’’یہ سب‘‘ مذکر مونث کے لئے مشترک ہے۔ اور بعید کے لئے آخر پر ’’کَ‘‘ لگاتے ہیں (جسے نحوی ’’ کافِ خطاب‘‘کہتے ہیں۔) ڈکشنری میں یہ(اولئک) آپ کو ’’ا ل ی‘‘مادہ میں ملے گا اور بعض اسے مادہ ’’اول‘‘کے تحت بیان کرتے ہیں۔ اس کا ان مادوں سے بننے والے افعال سے کوئی تعلق نہیں صرف اس کے حروف کی ابجدی ترتیب کے لئے اسے ان مادوں کے تحت بیان کیا جاتا ہےـــ  اسمائے اشارہ پر ایک اجمالی سی بحث اس سے پہلے البقرہ :۲(۱:۱:۲: (۱) کے تحت بھی گزر چکی ہے۔

            [علی] حرف الجر ہے۔ اس کے معنی اور استعمالات پر ۱:۶:۱(۳)میں بات ہوچکی ہے ۔یہاں اس کا ترجمہ ’’پر‘‘ ہوگا۔

۱:۴:۲(۲)     [ھُدًى]کی لغوی بحث اسی سورت کے شروع میں (ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ) میں (۱:۱:۲ (۴))  اور سورۃ الفاتحہ میں (اھدنا) کے ضمن میں (۱:۵:۱(۱))گزر چکی ہے۔ ھدًی کی دوسری شکل ’’ھدایۃً‘‘ باملاء ’’ہدایت‘‘ بمعنی ’’راہ دکھانا‘‘ اردو میں مستعمل ہے۔ اس لئے بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’ہدایت ‘‘ ہی کیا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’’راہ‘‘، ’’ٹھیک راہ‘‘، ’’سیدھا راستہ‘‘، ’’راستہ‘‘ بھی کیا ہے جو مفہوم اور محاورہ کے لحاظ سے درست ہے۔ تاہم جب ’’ھدی‘‘ ہی کے مادہ اور اشتقاق کا  (اور ہم معنی) لفظ ’’ہدایت‘‘ اردو زبان میں اپنے اصل عربی معنوں کے ساتھ مستعمل ہے تو اسے اختیار کرنا زیادہ موزوں ہے۔

۱:۴:۲(۳)     [مِنْ]حرف الجر ہے اور مواقع استعمال کے لحاظ سے یہ متعدد معنی دیتا ہے مثلاً حسب موقع اس کا ترجمہ (۱) سے (۲)میں سے (۳) کے مقابلے پر (۴)کے بارے میں  (۵)کے عوض (۶)کے پاس سے  (۷)کی طرف سے(۸)کچھ بھی(۹)کوئی بھی (۱۰)کی وجہ سے (۱۱)کا، کے، کی سے کیا جاتا ہے اور کبھی یہ بعض دوسرے حروف جارہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً بِ=کے ساتھ، علی=اوپر، عَن=سے، کی طرف سے، فی=میں اور عندَ (ظرف بمعنی کے ہاں کے پاس) ’’مِن‘‘ کے بارے میں اس سے پہلے بحث استعاذہ  اور سورہ البقرہ کی آیت نمبر۳ کے ضمن میں (۱:۲:۲پر)بھی بات ہوچکی ہے۔ چاہیں تو ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجئے۔ یہاں (آیت زیر مطالعہ) ’’من‘‘ کا ترجمہ ’’کی طر ف سے‘‘ یا ’’کی‘‘ کے ساتھ ہوسکتا ہے۔

۱:۴:۲(۴)     [رَّبِّهِمْ] یہ  ربّ +ھم (ضمیر غائبین بمعنی ’’ان کا‘‘) سے مرکب ہے۔ لفظ ’’ربِّ‘‘کے مادہ، اشتقاق اور معنی پر سورۃ الفاتحہ کے شروع میں بات ہوچکی ہے۔ (۳)۱۱:۲:۱س لفظ (رب) کا ترجمہ بیشتر مترجمین نے ’’پروردگار‘‘ کیا ہے (جو ہمارے نزدیک نہایت موزوں ترجمہ ہے) اگرچہ بعض نے ’’رب‘‘ ہی رہنے دیا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں