اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

 

  • لام الجر مختلف افعال کے ساتھ بطور صلہ کے بھی آتا ہے اور ان کو مخصوص اور متعدد معنی دیتا ہے۔
  • کبھی کبھی لام الجر (لِ) بعض دوسرے حروف الجر خصوصاً اِلٰی’ علٰی’ عنِ ‘ فی ’ مَعَ اور مِنْ کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ حروف جارہ کے اس باہم ایک دوسرے کی جگہ اور معنوں میں استعمال کو ’’تناوب حروف الجر‘‘ کہتے ہیں یعنی حروف الجرّ   کا باہم ایک دوسرے کی نیابت کرنا۔
  • ’’لام‘‘ بطور جار کسی اسم سے پہلے آئے یا بطور صلہ کسی فعل کے بعد ــــ تو یہ ہمیشہ مکسورہ (لِ) ہوتی ہے۔ البتہ ضمائر کے شروع میں ـ  ماسوائے ضمیر واحد متکلم ’’ی‘‘ کے  ـ یہ ہمیشہ مفتوح آتی ہے۔
  • لام مفتوحہ(لَ) کے اپنے مختلف معنی اور مواقع استعمال ہیں جن کا بیان اپنے موقع پر آئے گا۔
  • اسی طرح ہر دو قسم کے ’’لام‘‘ (مفتوحہ اور مکسورہ) افعال کے شروع میں بھی آتے ہیں اور مختلف معنی پیدا کرتے ہیں۔
  • ’’لام‘‘ کے اس متنوع استعمال کے بارے میں آپ عربی قواعد و گرامر کے مطالعہ کے دوران بہت سی چیزیں پڑھ بھی چکے ہوں گے۔ اور ہماری اس کتاب میں بھی یہ چیزیں اپنے اپنے موقع پر بیان ہوں گی۔
  • اسم جلالت (اللہ) کی لغوی وضاحت پہلے ہوچکی ہے۔ دیکھئے ( ۱:۱:۱)

آیت زیر مطالعہ میں (لِلّٰہِ) کا اردو ترجمہ ’’اللہ کے لئے‘‘ ، ’’اللہ کا حق‘‘، ’’اللہ کو سزاوار یا زیبا‘‘ وغیرہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ بعض حضرات نے ’’اللہ ہی‘‘ کیساتھ ترجمہ کیا ہے۔ یہ اُس صورت میں درست ہوگا۔ جب ’’لِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘ کہا جائے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں متعدد جگہ یہ کلمہ مقدّم ہوکر آیا ہے۔

            [رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ] میں دو کلمات ہیں ’’ربّ‘‘ اور ’’العٰلمین‘‘۔ ہر دو کی الگ الگ لغوی وضاحت کی جاتی ہے۔

۱: ۲:    ۱  (۳) (۱)   ’’ رَبٌ‘‘  (جس کے ’’رَبِّ‘‘ کی صورت میں استعمال ہونے کی وجہ الاعراب[۲:۲:۱ ]میں آئے گی)۔ کا مادہ ’’ر ب ب‘‘ وزنِ اصلی ’’فَعْلٌ‘‘ اور شکلِ اصلی ’’رَیْبٌ‘‘ ہے۔

            اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد رَبَّ یَرُبُّ رَبًّا (باب نصر سے) ہمیشہ متعدی اور صلہ کے بغیر آتا ہے یعنی ’’رَبَّہٗ‘‘ کہتے ہیں مفعول بنفسہٖ کے ساتھ اور اس کے دو معنی ہیں:

            (ا) کسی کا مالک ہونا ۔          (۲)کسی کی پرورش کرنا

  • اس طرح لفظ ’’ رَبٌّ‘‘ دراصل تو مصدر ہے مگر یہاں (آیت زیر ِ مطالعہ میں) یہ صفت بمعنی اسم الفاعل آیا ہے۔ اور اس کی دو صورتیں ہیں:۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں