اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

۱:۱:۲(۴)      ’’رَيْبَ‘‘  کا مادہ ’’ر ی ب‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ (مگر یائے لینہ کی وجہ سے اس کے پڑھنے کا طریقہ ، حرفِ صحیح سے، جدا ہے۔) اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’رَابَ … یَرِیبُ رَیْبًا (باب ضرب سے) بمعنی … کو’’ شک یا شبہ میں ڈالنا‘‘ ہمیشہ متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے۔ اس فعل کے بنیادی معنی ’’دل میں کھٹک، بے چینی، قلق یا اضطراب پیدا کرنا‘‘ کے ہیں۔ تاہم اس (کے ثلاثی مجرد فعل) سے قرآن کریم میں کوئی صیغہ نہیں آیا۔ البتہ مزید فیہ کے بعض ابواب (مثلاً افعال اور افتعال) سے افعال کے کچھ صیغے اور کچھ مشتقات آئے ہیں جن کی وضاحت اپنے موقع پر ہوگی۔

            لفظ ’’ رَيْبَ‘‘ (جو مذکورہ بالا فعل کا مصدر بھی ہے اور اس سے اسم بھی ہے) قرآن کریم میں اٹھارہ (۱۸) جگہ آیا ہے۔ جس میں نو(۹) دفعہ تو یہی ترکیب ’’ لَارَیْبَ فِیْہِ ‘‘ آئی ہے۔

۵:۱:۱(۵)     ’’ فِیْہِ‘‘  میں ’’فِی‘‘ (حرف جاّر) اور ’’ہ‘‘ (ضمیر مجرور برائے واحد غائب مذکر) ہے۔

  • بعض دوسرے حروف جارّہ کی طرح ’’فِی ‘‘ کے بھی متعدد معانی اور مواقع استعمال ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ عموماً (۱) … میں‘‘ کیا جاتا ہے جو بہت سے مواقع استعمال کے لئے موزوں ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ (فی) (۲) … کے ساتھ‘‘ (۳)….کی بنا پر (۴)…کے مقابلہ پر (۵)…کی نسبت (۶)… کے بارے میں کے معنی میں بھی آتا ہے اور بعض دفعہ یہ کسی دوسرے حرفِ جارّ مثلاً ’’علی‘‘، ’’ب‘‘، ’’الی‘‘ اور ’’مِن‘‘ کی جگہ یعنی ان کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں فی ْ کا ترجمہ ’’میں‘‘ یا ’’کے بارے میں‘‘ کر سکتے ہیں۔
  • ’’ فِیْہِ‘‘ میں ’’فِیْ‘‘ کے بعد جو ضمیر مجرور ’’ ہ‘‘ ہے اسے ’’ھا ئے کنایۃ‘‘ بھی کہتے ہیں اور حسب موقع اس کا تلفظ ’’ہٗ‘‘ (ھُوْ)‘‘ ہٖ (ھِیٗ) ’’ ھُ‘‘ اور ’’ہِ‘‘ ہوسکتا ہے۔ اس (تلّفظ) کا قاعدہ یہ ہے کہ (ا) اگر اس کا ماقبل مضموم یا مفتوح ہو تو اسے ’’ ھُوْ‘‘ کی طرح بولتے ہیں جیسے رَسُولُہٗ اور رَسُولَہٗ، لَہٗ۔(۲)اگر ماقبل مکسور ہوتو اس کا تلفظ ھِیْ ہوتا ہے جیسے بِہٖ، کتابِہٖ۔(۳)اگر اس کا ماقبل ’’ی‘‘ کے علاوہ کوئی اور حرف ساکن، یا الف مدّہ یا واو ساکنہ (مدّہ یا لینہ) ہو تو اسے صرف ’’ہُ‘‘ بولتے ہیں مثلاً مِنْہُ، عَصَاہُ، اَخُوہُ یا اَتَوْہُ۔ (۴)اور اگر اس کا ماقبل یائے ساکنہ ہوتو اس کا تلفظ ’’ہِ‘‘ ہوتا ہے جیسے ’’ فِیہِ‘‘ میں اور یہی قاعدہ (ما قبل ساکن ’’یاء‘‘ والا) غائب کی دوسری ضمیروں ’’ ھُما، ھُمْ اور ھُنّ‘‘ پرچلتا ہے مثلاً’’ فِیھِما، فِیھُم اور فِیھنَّ ‘‘کی صورت میں البتہ واحد مؤنث ضمیر ’’ھا‘‘ پر یہ قاعدہ اطلاق پذیر نہیں ہوتا۔
  • ھائے کنایہ کے تلفظ کے مذکورہ بالا قواعد کا تعلق لغت یا نحو سے نہیں بلکہ قراء ۃ اورتجوید سے ہے۔ قرآن کریم میں تو قواعد کے مطابق حرکات لگی ہی ہوتی ہیں لیکن اس ’’ہ‘‘ کے تلفظ میں فرق اور اختلاف کی وجہ سمجھانے کے لئے ہم نے یہ قواعد بیان کئے ہیں تاکہ آپ بغیر حرکات والی عبارت میں بھی اس کو درست طریقے پر پڑھ سکیں۔

۱:۱:۲ (۶)     [ھُدًی] کا مادہ ’’ھ د ی‘‘ اور وزن اصلی ’’ فُعَلٌ‘‘ ہے۔ اس کی شکل اصلی ’’ھُدَیٌ‘‘ تھی، جو بلحاظ تلّفظ ’’ھُدَیُنْ‘‘ تھا۔ اس میں یائے متحرکہ اپنے ماقبل کے مفتوح ہونے کی بنا پرالف میں بدل گئی یعنی ’’ھُدانْ‘‘ بن گیا۔ اب اس میں دو ساکن (ایک الف دوسرا نون) جمع ہوگئے لہٰذا الف کو گرادیا گیا تو یہ لفظ ’’ھُدَنْ‘‘ رہ گیا۔ اسی کو ’’ھُدًی‘‘ لکھتے ہیں تاکہ معلوم رہے کہ یہ ناقص یائی ہے۔ خیال رہے کہ اسی اوپر بیان کردہ قاعدۂ تعلیل کے مطابق ’’ھُدَیًا‘‘ اور ’’ھُدَیٍ‘‘ (منصوب و مجرور) بھی ’’ھُدًی‘‘ ہی رہ جاتے ہیں یعنی یہ لفظ رفع نصب جر تینوں حالتوں میں ’’ھُدًی‘‘ ہی رہتا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں