اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • اسماء موصولہ پہلی ’’چھ‘‘ شکلوں کی املاء کو غور سے دیکھئے۔ واحد مذکر، واحدمونث اور جمع مذکر میں ’’لام‘‘ (ل) ایک دفعہ لکھا جاتا ہے۔ (الذی، التی اور الذین) مگر تثنیہ مذکر، تثنیہ مؤنث اور جمع مؤنث میں ’’لام‘‘ دو دفعہ لکھا جاتا ہے۔ (اَللَّذانِ، اَللَّتان، اللّٰاتِی وغیرہ) تاہم خیال رہے کہ یہ عام عربی قیاسی املاء (رسم معتاد) ہے۔ قرآن کریم میں ان اسماء (موصولہ) کے لکھنے کے اپنے خاص طریقے ہیں جو اپنی اپنی جگہ ’’الرسم‘‘ کے عنوان کے تحت مذکور ہوں گے۔ (ان شاء اللہ تعالٰی)

۱:۶:۱ (۲)     [اَنْعَمْتَ]   کا مادہ ’’ن ع م‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلْتَ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد نعَمَ یَنعُمُ نِعْمَۃً ۔ نعِمَ یَنعَمُ نِعْمَۃً ۔ نعَمَ یَنعَمُ نِعْمَۃً (باب نصر، سمع اور فتح سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں۔ ’’خوشحال ہونا‘‘، ’’مالا مال ہونا‘‘ ’’تازہ اور سرسبز ہونا‘‘ اور نعُم ینعُم نُعُومَۃً (باب کرم سے) کے معنی ’’نرم و نازک ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ فعل ہمیشہ لازم اور بغیر صلہ کے آتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اس مادہ سے ثلاثی مجرد کوئی فعل نہیں آیا۔ البتہ ثلاثی مجرد کے مصدر ’’نِعمۃ‘‘ مزید فیہ کے دو ابواب (افعال اور تفعیل) سے اَفعال کے کچھ صیغے اور اس مادہ (نعم) سے مشتق اور ماخوذ متعدد اسماء قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں۔

  • لفظ ’’اَنْعَمْتَ‘‘ اس مادہ سے باب افعال کا فعل ماضی معروف کا صیغہ واحد مذکر مخاطب ہے۔ باب افعال کے اس فعل اَنْعَمَ … یُنْعِمُ اِنْعَامً کے معنی ہیں ’’…کو نعمت دینا‘ … پر انعام کرنا‘‘۔ یہ فعل ہمیشہ متعدی آتا ہے اور اس کے لئے عموماً دو مفعول درکار ہوتے ہیں (ا) جس کو انعام دیا جائے اور (۲) جو چیز انعام کے طور پر دی جائے۔ ان میں سے پہلے مفعول کے لئے یہ فعل ہمیشہ ’’علٰی‘‘کے صلہ کے ساتھ آتا ہے اور اس مفعول (اوّل) کو’’ مُنْعَمْ عَلَیْہ‘‘ کہتے ہیں۔دوسرا مفعول، اگر مذکور ہو تو یہ صلہ کے بغیر (مفعول بنفسہٖ ہو کر) بھی اور باء (بِ) کے ساتھ بھی آتا ہے۔ اور اس (چیزکو جو بطور انعام دی جائے) کو ’’مُنْعَمْ بِہٖ‘‘ کہیں گے مثلاً آپ عربی میں یوں کہیں گے: اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الشَّیَٔ یا   بِالشَّیِٔ (اللہ نے اس کو (فلاں) چیز انعام دی) قرآن کریم میں اس فعل کے ساتھ باء (بِ) کے صلہ کا استعمال تو کہیں نہیں ہوا۔ مفعول بنفسہٖ کی بھی مثال صرف ایک جگہ (الانفال: ۵۳) آئی ہے۔اس کا بیان اپنی جگہ آئے گا۔ البتہ ’’علٰی‘‘ کے صلہ کے ساتھ (صرف مفعول اوّل  ۔ منعم علیہ کا ذکر کرتے ہوئے) اس فعل (اِنعام) سے سترہ مختلف صیغے قرآن کریم میں آئے ہیں۔

۱:۶:۱ (۳)     [عَلَیْھِمْ]یہ دراصل ’’عَلٰی‘‘(حرف الجر) اور ’’ھُمْ‘‘(ضمیر مجرور متصل) سے مرکب ہے۔’’عَلی‘‘جب کسی ضمیر سے پہلے آئے تو اُسے عموماً ’’عَلَیْ‘‘پڑھا جاتا ہے اور ضمیر مجرور ’’ھُم‘‘سے پہلے اگر کوئی مکسور حرف یا ساکن یاء (یْ)آئے تو عموماً اسے ’’ھِمْ‘‘  پڑھتے ہیں اور یہی قاعدہ ’’ھُما‘‘ اور ’’ھُنَّ‘‘ میں بھی جاری ہوتا ہے یعنی عَلَیْھِمْ، عَلَیْھِمَا، عَلَیْھِنَّ  پڑھے جاتے ہیں ۔ اس قاعدے کا تعلق صرف عربوں کے طریق تلفظ سے ہے اور اس کا عملاً اطلاق فن قراء ۃ اور تجوید میں ہوتا ہے ۔[1]  یہ کسی لغوی اشتقاق یا نحوی (اعراب وغیرہ کے) قاعدے پرمبنی نہیں ہے۔

_____________________________

  [1] اور فن قراء ت میں اس (علیھم) کے پڑھنے کے بعض دیگر طریقوں (قراء ت) سے بھی بحث کی جاتی ہے۔ مثلاً ’’عَلَیْھُم‘‘ اور ’’عَلَیْھِمُوْ‘‘ وغیرہ۔ کیونکہ بعض عرب اس طرح بھی بولتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے چاہیں تو دیکھئے البیان (ابن الانباری) ج ۱ ص ۴۰-۳۹ یا قراأت کی کوئی کتاب۔

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں