۵:۱ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾
۵:۱ :۱ اللغۃ
۱:۵:۱ (۱) [اِھْدِ] کا مادہ ’’ھ د ی‘‘ اور وزن اصلی ’’اِفْعِلْ‘‘ ہے اور شکل اصلی ’’اِھْدِیْ‘‘ تھی۔
اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ھُدٰی … یَھْدِی ھُدًی (دراصل ھَدَی یَھْدِیُ باب ضرب سے) ہمیشہ متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: …کو راستہ دکھانا، …کو راہ بتلانا ، …کو راستے پر ڈالنا، … کو رستے چلانا ـــ عموماً تو اس سے مراد ’’ازراہِ لطف و کرم سیدھا راستہ دکھانا ‘‘ ہی ہوتا ہے ۔البتہ قرآن کریم میں ایک آدھ جگہ تحکماً اور طنزاً ’’دوزخ کا راستہ دکھانا‘‘ کے لئے آیا ہے۔
- اس فعل (ھدی یھدی) کے بعض دفعہ دو مفعول ہوتے ہیں۔ پہلا مفعول (یعنی جسے جو راستہ دکھایا گیا) تو ہمیشہ بغیر صلہ کے (مفعول بنفسہٖ) آتا ہے مگر دوسرا مفعول (یعنی جدھر یا جو راستہ دکھایا گیا) بغیر صلہ کے بھی اور کبھی لام (لِ) اور کبھی ’’اِلی‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی آتا ہے ۔ یعنی ’’اس نے اسے راستہ دکھایا‘‘ کا عربی میں ترجمہ تین طرح ہوسکتا ہے (۱) ھداہ الصراطَ (۲) ھداہ لِلصراط اور (۳) ھداہ الی الصراط (صراط =راستہ ) … قرآن کریم میں اس فعل کے استعمال کی یہ تینوں صورتیں آئی ہیں۔
بعض اہلِ لغت پہلی صورت (بغیر صلہ والی) کو لغتِ اہلِ حجاز کہتے ہیں او دوسری دو (صلہ والی) کو حجاز سے باہر کی بولی سمجھتے ہیں ـــ (حجاز یا الحجاز : عرب کا وہ مغربی جغرافیائی خطہ جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ واقع ہیں۔)
- لفظ ’’ اِھْدِ ‘‘ دراصل ’’اِھْدِیْ‘‘ تھا یعنی فعل ثلاثی مجرد سے صیغہ امر واحد مخاطب مذکر۔ عرب لوگ کسی ناقص مادہ سے فعل ثلاثی مجرد مجزوم کے ضمہ (ـــــُـــــ) پر ختم ہونے والے مضارع کے پانچ صیغوں میں آخر پر آنے والی ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ کو تلفظ سے ساقط کر دیتے ہیں۔ بلکہ اسے لکھتے بھی نہیں ـ اسے ہی ’’صرفی تعلیل‘‘ کہتے ہیں۔ مثلاً اسی فعل سے فعل مضارع منفی بلَمْ ’’لَمْ یَھْدِ‘‘ رہ جائے گا اور فعل امر ’’اِھْدِ‘‘ رہ جاتا ہے جس کی گردان ’’اِھْدِ، اِھْدِیَا، اِھْدُوا، اِھْدِیْ اِھْدِیَا اور اِھْدِیْنَ‘‘ ہوگی۔ ان تمام صیغوں کے شروع کا الف ہمزۃ الوصل ہے جو اس صیغہ کے اپنے سے ماقبل کسی کلمہ (اسم، فعل یا حرف) کے ساتھ ملا کر پڑھنے کی صورت میں تلفظ سے گر جاتا ہے ۔ ( اگرچہ لکھا جاتا ہے) ’’ھدی‘‘ قرآن کریم کا ایک کثیر الاستعمال مادہ ہے ۔ اس سے اسماء و افعال کے تین سو سے زائد صیغے قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں۔ [1]
______________________________
[1] ہدایت کے مختلف طریقے یا ’’اقسام ہدایت‘‘ نیز کسی خاص عبارت میں ہدایت کے مختلف معنی ہائے مراد (مثلاً صرف راہ دکھانا یا منزل پر پہنچا دینا وغیرہ) کی تفصیل کے لئے کسی اچھی تفسیر کی طرف رجوع کیا جائے یا مثلاً دیکھئے مفرداتِ راغب مادہ ’’ھدی‘‘ یا قاموس قرآنی ج ۳ ص ۱۴۵۔