اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃالبقرہ  آیت نمبر۱  اور ۲

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾  

  • سورۃ البقرہ بلحاظ زمانہ نزول مدنی (بعد ہجرت) دور کی سورت ہے۔ اس سورت کی آیات کو فی طریقۂ شمار کے مطابق ۲۸۶ ہیں۔ (اور یہی گنتی مصر اور تمام ایشیائی ممالک میں رائج ہے)   بصری گنتی کے مطابق سورت کی آیات ۲۸۷، مدنی (اول و ثانی ہر دو) کے مطابق ۲۸۵ اور یہی (۲۸۵) مکی اورشامی گنتی ہے۔ مواضع اختلاف کی طرف اپنی اپنی جگہ پر اشارہ کر دیا جائے گا۔

۱:۱:۲       اللغۃ

            (الم) حروف مقطعات میں سے ہے۔ ان حروف کے ساتھ کوئی لغوی یا نحوی بحث وابستہ نہیں ہے۔ البتہ ان کے طریق تلاوت (تلّفظ)کے قواعد اور طریق رسم (املاء) کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ ان کے ’’معانی‘‘ کی بحث کسی اچھی تفسیر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جو بیشتر قیاس آرائیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ بعض معقول اور بیشتر غیر معقول۔ بہر حال اس کا تلفظ ’’اَلِفْ لَامْ مِیْمْ‘‘ہے۔

خیال رہے کہ عربی میں حروف تہجی کے نام ’’معرب‘‘ ہوتے ہیں مثلاً ’’اَلِفٌ یا الفًا یا الفٍ‘‘ حسب موقع استعمال ہو سکتا ہے۔ مگر حروفِ مقطعات میں ہر حرف کا تلفظ اس کے نام (کے آخری حرف) پر وقف کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یعنی ’’اَلفٌ، لَامٌ، مِیْمٌ‘‘کہنے کی بجائے ’’الِفْ، لام، مِیمْ‘‘ بولا اور پڑھا جاتا ہے۔ تاہم یہ حروف لکھے ملا کر جاتے ہیں۔ مزید وضاحت عنوان ’’الرسم‘‘ کے تحت آئے گی۔ (۳:۱:۲ میں)

۱:۱:۲ (۱ )     [ذٰلِکَ] واحد مذکر کے لئے اسم اشارہ بعید ہے۔ (عربی میں لفظ ’’کتاب‘‘ مذکّر ہے) اور اس کے معنی ہیں ’’وہ‘‘ــ خیال رہے کہ اس اسم کا مادہ ’’ذل ک‘‘ نہیں ہے بلکہ اس کی اصل مذکر کے لئے ’’ذا‘‘ اور مؤنث کے لئے ’’ذی‘‘ یا ’’ذہ‘‘ یا ’’تی‘‘ ہے۔ اس لئے عربی معاجم (ڈکشنریوں) میں ’’باب الذال‘‘ کے شروع ہی میں اس پر بات کی جاتی ہے۔ اسماء اشارہ کی اصل گردان تو یوں ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں