اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیات  ۱۰۴  اور  ۱۰۵

۲ : ۶۳    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَ اسۡمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۰۴﴾مَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ لَا الۡمُشۡرِکِیۡنَ اَنۡ یُّنَزَّلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۱۰۵﴾    

۲ : ۶۳ : ۱        اللغۃ

[يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا . . . .]

(۱)  ’’ يٰٓاَيُّہَا ‘‘. . . . (اے) یہ’’یا ایُّ ھا ‘‘ کا مجموعہ ہے جو مل کر حرفِ  ندا ’’یا‘‘ کا ہی کام دیتا ہے، البتہ اس کے استعمال میں مذکر مٔونث الگ الگ صورتِ کلمہ سے کی جاتی ہے۔ اس مجموعی کلمہ (يٰٓاَيُّہَا) کی مفصل لغوی نحوی بحث البقرۃ : ۲۱ [۲ : ۱۶ : ۱ (۱)]   میں گزری تھی۔

(۲) ’’ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ (وہ لوگ جو ایمان لائے)۔ اس کے ابتدائی اسم موصول (الَّذِيْنَ) کے استعمال اور املاء وغیرہ پر الفاتحہ : ۷ [۱  : ۶ : ۱(۱) ]  میں بات ہوئی تھی۔ اور ’’ اٰمَنُوْا ‘‘ کے باب مادہ، معنی وغیرہ کے لئے دیکھئے البقرہ : ۳  [۲ : ۲ : ۱ (۱) ] ۔ یہی پوری ترکیب (الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا) پہلی دفعہ البقرہ: ۱۴ [ ۲ : ۱۱ : ۱ (۱) ] میں گزری ہے ۔ یہاں شروع میں حرف نداء (یاایھا) لگنے  سے اس کا ترجمہ بصورتِ خطاب ہوگا  ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو‘‘۔ اسی کا شستہ ترجمہ ’’اے ایمان والو‘‘ کیا جاسکتا ہے۔

(۳) ’’ لَا تَقُوْلُوْا ‘‘ (تم مت کہو، تم نہ کہو)یہ فعل (قال یقول) (کہنا) سے فعل نھی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس فعل کی لغوی وضاحت البقرہ :       ۸ [۲ : ۷ : ۱ (۵) ] میں گزری ہے۔  ’’ لَا تَقُوْلُوْا ‘‘ کا وزن اصلی ’’لا تفعلوا‘‘ اور شکل اصلی ’’ لَا تَقُوْلُوْا ‘‘ تھی، جس میں متحرک حرف علت کی حرکت اس سے ماقبل ساکن حرف صحیح کو دے دی جاتی ہے اور اس سے فعل نھی کی گردان ’’ لا تقل ، لا تقولا، لا تقولوا، لا تقولی، لا تقولا اور لا تقلن ‘‘ ہوگی۔

(۴) [رَاعِنَا] اس میں آخری ’’نا‘‘ تو ضمیر منصوب (بمعنی ’’ہم کو ، ہمیں‘‘) ہے اور ابتدائی لفظ ’’راعِ‘‘ کا مادہ ’’ر ع ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فاعل‘‘ ہے۔ یعنی یہ باب مفاملہ سے فعل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’راعی‘‘ تھی، مگر ناقص افعال جب مجزوم ہوتے ہیں (جس کی ایک شکل فعل امر ہونا ہے) تو لام کلمہ کے طور پر آنے والا حرف علت (و  یا  ی) کتابت اور تلفظ سے گر جاتا ہے۔ یوں یہ لفظ اب بوزن ’’فاعِ‘‘ رہ گیا ہے۔

  • اس مادہ سے فعل مجرد ’’رعَی یَرعَی (رَعَیَ یَرْعَی) رَعْیاً و مَرْعیً ‘‘ (فتح سے ) کے بنیادی معنی ہیں ’’جانور کی حفاظت کرنا خوراک مہیا کرکے یا دشمن سے بچا کر۔‘‘ پھر اس میں ’’مویشیوں کا (گھاس وغیرہ کو) چرنا (چرجانا) یا ان کو (اس میں) چرانا (چرنے کے لئے چھوڑنا)‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی یہ فعل تو متعدی ہی ہے اور اِس کا مفعول ’’گھاس یا چراگاہ‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور ’’مویشی وغیرہ‘‘ بھی۔ مثلاً کہیں گے: ’’رَعَتِ المَاشِیَۃْ الْکَلَلأَ‘‘ (مویشیوں ) (الماشیۃ) نے گھاس (الکلأ) کو چرلیا۔ چر گئے) اور ’’’رعی الماشیۃ‘‘ (اس نے مویشیوں کو چرانے کے لئے کھلا چھوڑ دیا یعنی چرایا) . . . . اور اگر ’’راعَی علٰی فلان ‘‘ کہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے ’’اس نے فلاں کے مویشی چرائے۔‘‘ پھر اس سے یہ فعل ’’نگرانی کرنا‘ حفاظت کرنا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، مثلاً کہتے ہیں ’’رَعَی الشَّی ‘‘ (اس نے چیز کی حفاظت کی) مگر اس صورت میں اس کا مصدر زیادہ تر ’’رعایۃ‘‘ آتا ہے (اسی سے ہمارا اردو کا لفظ ’’رعایت‘‘ بنا ہے)اور اسی (حفاظت کرنا والے) معنی سے لفظ ’’رعیۃ‘‘ ماخوذ ہے جو اردو میں تائے مبسوط کی املا کے ساتھ (رعیت) استعمال ہوتا ہے۔ یعنی زیر نگرانی یا زیر حفاظت افراد کا مجموعہ۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں