اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۲۱ اور ۲۲

۱۶:۲    یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً ۪ وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّکُمۡ ۚ فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا وَّ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۲﴾ 

۱:۱۶:۲      اللغۃ

۱:۱۶:۲(۱)      [يٰآ اَيُّهَا] یہ دراصل تین حروف (کلمات) پر مشتمل ہے یعنی یا+ایّ+ھا سے مرکب ہے۔ ان میں سے ’’یا‘‘ تو حرف ندا ہے جو عربی میں کسی کو پکارتے وقت استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ عموماً ’’اے‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اور ’’اَیُّ‘‘ ایک مبنی برضمہ (یعنی ہمیشہ ضمہ (ــــــُــــ) کے ساتھ ختم ہونے والا( لفظ ہے (یہ استفہام والا ’’اَیٌّ‘‘ نہیں جس کے معنی ’’کون سا‘‘ ہوتے ہیں اور جو معرب ہوتا ہے) اس کا کوئی خاص الگ ترجمہ تو نہیں کیا جاسکتا مگر اسے ’’تو جو…‘‘ یا ’’وہ جو…‘‘ کے مفہوم میں لیا جاسکتا ہےـــ اور آخری ’’ھا‘‘ ضمیر نہیں بلکہ صرف کلمہ تنبیہ ہے جو مخاطب کو متوجّہ کرنے کے لیے حرف ِندا کے ساتھ لگتا ہے۔ جیسے ہم پنجابی (اور اردو) میں کسی کو پکارتے وقت اس (منادیٰ) کے نام کے آخری حصّے کو ذرا لمبا کرکے بولتے ہیں مثلاً ’’نعیم‘‘ کو پکارتے وقت یا تو ’’نعی ی ی ی م‘‘ کہہ کر یا ’’نعیم ُو و و…‘‘ کی مانند بولتے ہیں۔ عربی میں اس مقصد کے لیے ’’ھا‘‘ منادٰی سے پہلے استعمال کرتے ہیں۔

  • اس طرح ان تینوں حرفوں (یا+ای+ھا) کا الگ معنی تو بنتا ہے: اے تو /  وہ جو…۔ اور یہ ہمیشہ کسی  معرف باللام  منادٰی (جسے پکارا جائے) کے شروع میں ایک حرف ِندا کی مانند لگتے ہیں۔ مثلاً ’’ یاایھاالرجل‘‘ کا اصل مفہوم تو بنتا ہے ’’اے وہ کہ (جو/تو) مرد ہے‘‘ مگر محاورے میں اس کا مطلب ’’اے مرد!‘‘ ہی لیا جاتا ہے۔
  • اس بات کو یوں سمجھئے کہ حرف ندا ’’یَا‘‘ کسی معرف باللام منادٰی کے ساتھ استعمال نہیں ہوسکتا۔  [1] اس لیے کہ ندا کا تقاضا ہے کہ ’’یَا‘‘ کو کھینچ کو بولا جائے اور لام تعریف کا (بوجہ ھمزۃ الوصل) تقاضا یہ ہے کہ اس سے ماقبل کو اس میں ملا دیا جائے۔ اس لیے ’’یا‘‘ کی لمبی آواز کو بچانے کے لیے، عربی میں اس ’’یَا‘‘اور منادٰی کے درمیان مذکر کے لیے ’’اَیُّھَا‘‘ اور مؤنث کے لیے ’’اَیَّتُھَا‘‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ اور لکھنے میں ان سے پہلے صرف ایک ’’ی‘‘ کا اضافہ ہوتا ہے (یعنی ’’یَا‘‘ کو بحذف الف لکھا جاتا ہے جسے پڑھا ’’یَا‘‘ہی جاتا ہے) یعنی ان دونوں لفظوں کو ’’یایّھا‘‘ اور ’’ یایَّتھا‘‘ لکھا جاتا ہے۔

____________________________________

   [1]   البتّہ ’’یَا اَللہُ‘‘ کہہ سکتے ہیں (یعنی ھمزئہ وصل کی بجائے ھمزئہ قطع کے ساتھ) اور اس مقصد (یعنی اللہ عزوجل کو پکارنے) کے لیے شروع میں ’’یَا‘‘ لگانے کی بجائے آخر پر ’’مَّ‘‘ لگانا زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے یعنی ’’اَللّٰھُمَّ‘‘ کی صورت میں اس پر مزید بحث آگے آئے گی۔

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں