اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۴ اور ۱۵

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚوَ اِذَا خَلَوۡا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمۡ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ ۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۱۴﴾

اَللّٰہُ یَسۡتَہۡزِئُ بِہِمۡ وَ یَمُدُّہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ﴿۱۵﴾

۱:۱۱:۲      اللغۃ

[وَاِذَا] پر ابھی اوپر البقرہ:  [ ۱:۹:۲(۱)] میں بات ہوچکی ہے

۱:۱۱:۲(۱)    [  لَقُوْا] کا مادہ ’’ل ق ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعِلُوا‘‘ ہے۔ اس کی شکل اصلی ’’لُقِیُوْا‘‘ تھی۔ ناقص کے قاعدے کے تحت واو الجمع سے ماقبل آنے والا لام کلمہ (ی) گر گیا اور اس سے ماقبل (عین کلمہ یعنی  ق) چونکہ مکسورتھا لہٰذا وہ مضموم ہوگیا اور یوں  اب یہ لفظ بصورت ’’ لقوا ‘‘ مستعمل ہے۔ اس مادہ (لقی) سے فعل ثلاثی مجرد لقِیَ… یَلْقٰی لِقاءً (باب سمع سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو ہیں ’’کسی کے سامنے آجانے پر (پہلے سے طے کئے بغیر) اس سے ملاقات ہوجانا‘‘ اس کا عام اردو ترجمہ ’’…سے ملنا، …سے ملاقات کرنا‘‘ ہے۔ اور حسب موقع یہ ’’…کے سامنے آجانا، پیش آنا اور … کو پانا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے اور پھر اس سے اس میں ’’…کے مقابلے پر آنا، …کومقابلے پر پانا، …کا سامنا کرنا،…سے مقابلہ ہونا، …کو سامنے پانا یا دیکھ لینا، …سے تکلیف اٹھانا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ فعل حسی اور معنوی دونوں طرح کی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

  • یہ فعل بنیادی طور پر متعدی ہے اور اس کا مفعول ہمیشہ بنفسہٖ (بغیر صلہ کے) آتا ہے مثلاً ’’ لقيَا غلامًا ‘‘ (الکھف:۷۴) اور ’’ اذالقیتم فئۃً ‘‘ (الانفال:۴۵) میں ’’غلامًا‘‘ اور ’’فئۃ‘‘ علی الترتیب مفعول بہٖ ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے ۱۵ کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ جن میں یہ فعل اپنے تمام بنیادی اور ثانوی معنوں کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ مجرد کے علاوہ مزید فیہ کے ابواب افعال، تفعیل، تفعل، تفاعل، مفاعلہ اور افتعال سے بھی مختلف اَفعال اور اسماء مشقتہ اور مصادر ۱۳۰سے زائد مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر حسبِ موقع بات ہوگی۔ان شاء اللہ

            زیرِ مطالعہ کلمہ ’’ لقوا ‘‘ اس فعل مجرد سے فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکرغائب ہے اور اس کاترجمہ ’’اذا‘‘ شرطیہ کے بعد آنے کی وجہ سے فعل حال میں کیا جائے گا  اگرچہ بعض نے فعل مضارع کے ساتھ بھی ترجمہ کیا ہے۔ یعنی ’’ اذالقوا ‘‘جب وہ ملتے ہیں یا جب وہ ملیں۔‘‘

            [الَّذين] اسم موصول[ دیکھئے ۱:۶:۱(۱)]بمعنی ’’وہ سب جو کہ‘‘

           [اٰمَنُوْا] کا مادہ ’’ا م ن‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلُوْا‘‘ ہے جو دراصل ’’أَأْمَنُوا‘‘ تھا پھر مھموز کے قاعدئہ تخفیف کے ماتحت ’’آمنوا‘‘ بنا۔ یہ اس مادہ سے بابِ افعال کا فعل ماضی معروف (صیغہ جمع مذکر غائب) ہے۔ اس کے بابِ افعال کے معنی وغیرہ پر پہلے بات ہوچکی ہے[ ۱:۲:۲(۱) میں]یہاں ’’آمنوا‘‘ کے معنی تو ہیں، وہ ایمان لائے۔ تاہم کس پر ایمان لائے! کا جواب ـــ یعنی فعل کا مفعول  ــــ مذکور نہیں ہوا۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں