اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر  ۹۷ اور۹۸

۲ : ۶۰   قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِیۡلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۹۷﴾مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّلّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ جِبۡرِیۡلَ وَ مِیۡکٰىلَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوٌّ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۹۸﴾    

۱:۶۰:۲       اللغۃ

     اس قطعہ میں کوئی نیا لفظ نہیں ہے، ماسوائے ’’جبریل‘‘ اور ’’میکٰل‘‘ کے، جو دو فرشتوں کے نام ہیں اور دراصل غیر عربی کلمات ہیں۔ باقی تمام کلمات بلا واسطہ (اسی شکل میں) یا بالواسطہ (مادہ اور اصل کے لحاظ سے) پہلے گزر چکے ہیں، لہٰذا ان کا صرف ترجمہ  ـ اورطالبِ مزید کے لیے  ــ لفظ کی لغوی تشریح کا گزشتہ حوالہ لکھ دیا جائے گا۔ اس کے لیے عبارت کو چند ادھورے جملوں میں تقسیم کرنا پڑے گا۔

۱:۶۰:۲ (۱)   [قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ]

’’قُلْ‘‘ (تو کہہ دے) جس کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعُلْ‘‘ ہے، کے باب، معنیٰ اور ساخت میں تعلیل وغیرہ کے مفصل بیان کے لیے دیکھیے البقرہ:۰ ۸: [۱:۵۰:۲ (۲)] نیز [۱:۷:۲ (۵)]

(۲) ’’مَنْ‘‘ (جو کوئی - جو) دیکھئے البقرہ: ۸[۱:۷:۲ (۴)]

(۳) ’’کَانَ‘‘ (تھا - ہے) جس کا مادہ ’’ک و ن‘‘ اور وزن اصلی  ’’فَعَلَ‘‘ ہے، کے معنی، باب اور ساخت کے لیے دیکھیے البقرہ:۳۴ [۱:۲۴:۲ (۵)]

(۴) ’’عَدُوًّا‘‘ (دشمن) اس کا مادہ ’’ع د و‘‘ اور وزن  ’’فَعُولٌ‘‘ ہے (جو عبارت میں منصوب آیا ہے) اس کے باب، فعل کے معنی اور لفظ کی ساخت وغیرہ پر بحث کے لیے دیکھیے البقرہ: ۳۶ [۱:۲۶:۲ (۷)]

(۵) ’’لِجِبْرِیْلَ‘‘ کی ابتدائی لام (الجر) یہاں مضاف کو نکرہ بنانے کے لیے استعمال ہوئی ہے، یعنی ’’جبریل کا ایک دشمن‘‘۔ عام اضافت ہوتی تو ’’عَدُوَّ جِبْرِیلَ‘‘ آتا۔ کلمہ  ’’جبریل‘‘  ایک فرشتہ کے نام کے طور پر آیا ہے۔ عجمی لفظ اور  عَلَم (نام) ہونے کے باعث یہ لفظ غیر منصرف ہے۔ کہا گیا ہے (تفاسیر میں) کہ یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے جو  ’’جبر‘‘  (بمعنی عبد یا بندہ) اور  ’’اِیل‘‘  (بمعنی خدا) کا مرکب ہے اور یوں اس کا مطلب ’’خدا کا بندہ‘‘ ہے۔ مختلف قبائل عرب میں اس لفظ کا تلفظ کئی طرح بیان ہوا ہے، یعنی ’’جِبْرِیْل، جَبْرَئِیل، جِبْرِیْن‘‘ (بالنون) ’’جَبْرِیْل‘‘  اور ’’جَبَرَئِل‘‘[1]وغیرہ۔

یوں اس عبارت کا لفظی ترجمہ ہوا ’’کہہ دے جو کوئی ہے (’’ہو‘‘ یا ’’ہو گا‘‘۔ بوجہ شرط ماضی میں ترجمہ نہیں ہو گا) دشمن (مخالف) جبریل کا‘‘۔ اردو محاورے کی وجہ سے نکرہ مضاف ’’عَدُوًّا‘‘  کا ترجمہ نظر انداز کرنا پڑتا ہے، در اصل تو تھا ’’جبریل کا ایک دشمن‘‘ ـ ـ اسی لیے بعض نے اس کا ترجمہ ’’جبریل سے عداوت رکھے‘‘ کے ساتھ کیا ہے، جو لفظ سے تو ہٹ کر ہے، مگر ایک لحاظ سے اس میں وہ ’’عَدُوًّا‘‘ کے نکرہ ہونے والی بات کا مفہوم آ گیا ہے، جو ’’جبریل کا دشمن‘‘ کہنے میں نہیں ہے۔ ’’قُلْ‘‘ کے مخاطب آنحضرتؐ ہیں، اس لیے احتراماً اس کا ترجمہ ’’تو کہہ دے‘‘ کی بجائے آپ کہہ دیجیے/ تم فرما دو‘‘ سے بھی کیا گیا ہے۔ اس عبارت میں بیانِ شرط ہے۔

___________________________

[1] دیکھیے اعراب القرآن للنحاس۱: ۲۵۰۔ و نثر المرجان ۱/ ۱۹۰

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں