اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • ’’ لَنْ تَمَسَّنَا ‘‘ میں فعل ’’لن تمسَّ‘‘ کا صیغہ واحد مونث ہے کیونکہ اس کا فاعل ’’النار‘‘ (جو آگے آرہا ہے) مؤنث سماعی ہے۔ اس طرح’’لن تمسنا‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’ہرگز نہ چھوئے گی ہم کو‘‘جسے بعض نے ’’ہم کو ہرگز نہ لگے گی (یعنی آگ جس کا آگے ذکر آرہا ہے) سے ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے ’’ہمیں تو نہ چھوئے گی‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جس میں ’’نفی جحد بلَن‘‘ (زور سے نفی کرنا) کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ بعض نے اس ’’نفی بجحد‘‘ (زور سے انکار) کے مفہوم کی بناء پر ترجمہ ‘‘ہم کو تو چھوئے گی بھی نہیں‘‘ سے کیا ہے جو اچھا ترجمہ ہے۔

[النَّارُ] کا مادہ ’’ن ور‘‘ اور وزن اصلی (لام تعریف نکال کر) ’’فَعَلٌ‘‘ ہے یہ دراصل ’’نَوَرٌ‘‘ تھا جس میں ’’واو متحرکہ ماقبل مفتوح‘‘ الف میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ کے علاوہ خود اسی لفظ (النار) کے بارے میں البقرہ:۱۷ [۱:۱۳:۲ (۴)]میں بات ہوچکی ہے۔ ’’النار‘‘ کے لفظی معنی تو ’’آگ‘‘ ہی ہیں تاہم لامِ تعریف کی بناء پر یہاں کوئی ’’خاص آگ‘‘ مراد ہے۔ اس لیے بیشتر مترجمین نے یہاں صرف آگ کی بجائے ’’دوزخ کی آگ‘‘ کی صورت میں تفسیری ترجمہ کیا ہے۔

[اِلَّا اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃً] کا ابتدائی  ’’اِلا‘‘ حرف استثناء (بمعنی مگر، سوائے،  بجز) ہے۔ یہاں (زیر مطالعہ عبارت) میں اس کے ’’عمل ‘‘پر حصہ ’’الاعراب ‘‘میں بات ہوگی۔

’’اَیَّامٌ‘‘ (جو یہاں منصوب’’اَیَّاماً‘‘ آیا ہے اس کی نصب پر بھی الاعراب میں بات ہوگی) کا مادہ ’’ی و م‘‘ اور وزن اصلی ’’اَفْعَالٌ‘‘ ہے گویا یہ دراصل ’’اَیْوَامٌ‘‘ تھا (جو’’ یَوْمٌ‘‘ بمعنی ’’دن‘‘ کی جمع مکسر ہے)۔ پھر ’’یائے ساکنہ کے بعد آنے والی واو متحرکہ کو بھی ’’یاء‘‘ میں بدل کر دونوں ’’یاء‘‘ باہم مدغم کرکے یہ لفظ بصورت ’’اَیَّامٌ‘‘ لکھا اور بولا جاتا ہے یعنی ’’اَیْوَامٌ = اَیْیَامٌ = اَیّام ‘‘۔  ’’ اَیّام‘‘ (نکرہ) کے معنی ’’کچھ دن، کئی دن‘‘ ہیں۔ لفظ ’’یوم‘‘ (جو ’’ایام‘‘ کا واحد ہے) کے مادہ، فعل باب وغیرہ پر الفاتحہ:۴ [۱:۳:۱ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔ ’’مَعْدُوْدَۃٌ‘‘ کا مادہ ’’ع د د‘‘ اور وزن ’’مَفْعُوْلَۃٌ‘‘ ہے (آیت  میں یہ لفظ منصوب آیا ہے جس کی وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) اس مادہ سے فعل مجرد(عدَّ یعُدّ= گننا، شمار کرنا) کے باب و معنی وغیرہ پر البقرہ:۲۴ [۱:۱۷:۲ (۱۴)]میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

  • لفظ ’’معدُودۃ‘‘ اس فعل مجرد (عدَّیَعُدُّ) سے اسم مفعول مؤنث کا صیغہ ہے۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے۔ ’’گنی ہوئی، شمار کی گئی‘‘ یہ لفظ یہاں ’’ایام‘‘ (جمع مکسر) کی صفت (ہونے کی وجہ سے مؤنث آیا) ہے۔اس لیے ’’اَیَّامٌ معدودۃٌ‘‘ (جو آیت میں منصوب آیا ہے) کا لفظی ترجمہ ہے ’’گنے ہوئے کچھ دن‘‘ جسے مترجمین نے سلیس اور بامحاورہ بنانے کے لیے ’’کئی دن گنتی کے/ چند روز گنے چنے/ تھوڑے روز جو شمار ہو سکیں/ گنتی کے چند روز/ گنتی کے دن/ اور چند گنے چنے دن‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے البتہ صرف ’’چند روز‘‘ میں ’’معدودۃ‘‘ کا ترجمہ نظر انداز ہوا ہے اور ’’جو شمار ہوسکیں ‘‘میں اصل عبارت (صیغۂ اسم مفعول) سے تجاوز ہے۔ مفہوم درست ہے۔

۱:۵۰:۲ (۲)      [قُلْ] کا مادہ ’’ق ول‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعُلْ‘‘ ہے۔ اصلی شکل ’’اُقْوُلُ‘‘ بنتی تھی جس میں ’’واو‘‘ متحرکہ کی حرکت ضمہ (ـــــُـــــ)  ماقبل ساکن حرف صحیح (ق) کو دی جاتی ہے اور وہ خود اجتماع ساکنین (’’و‘‘ اور ’’ل‘‘)کے باعث گر جاتی ہے اور ابتدائی ہمزۃ الوصل (ق کے متحرک ہوجانے کی بناء پر) گرا دیا جاتا ہے اور لفظ بصورت ’’قُلْ‘‘ لکھا اور بولا جاتا ہے گویا اُقْوُلُ = اُقُوْل اُقُلْ قُل۔ اب اس کا وزن ’’فُل‘‘ رہ گیا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں