جیسے پنجابی میں ’’چاقو‘‘ کو ’’قاچو‘‘ کہہ دیتے ہیں]اور یوں یہ لفظ ’’النِیَس‘‘ ہو کر پھر ’’ الناس‘‘ بن گیا۔ اور اس کا وزن الٹ کر ’’فَلَعٌ‘‘ رہ گیا ہے۔ اور اس لفظ کی یہ اصل بھی امالہ کی ایک وجہ ہوسکتی ہےـــ اور بقول بعض اس لفظ (الناس) کی اسی مادے (ن س ی) سے اصل شکل ’’اِنْسِیان‘‘ بروزن ’’اِفْعِلان‘‘سے ہے جس میں تبدیلی ہوکر ’’انسان‘‘ بنا ـــ پھر اس کی جمع ’’اَنَاسُ‘‘ معرف باللّام ہوکر ’’ الناس‘‘ بن گئی۔
- اور اس مادے (نسی) کے بارے میں علمی دلیل سے زیادہ ایک شاعرانہ توجیہ یہ بھی ہے کہ فعل ’’نسِیَ‘‘ سے اسم الفاعل ’’ناسٍ‘‘ (بھول جانے والا) بنتا ہے اور چونکہ ابوالبشر آدم علیہ السلام کے فرمان الٰہی کو بھول جانے کا ذکر قرآن کریم (طٰہٰ:۱۱۵) میں آیا ہے۔ اسی سے تلمیحاً یہ کہا جاتا ہے کہ ’’اوّل الناسِ اَوَّلُ ناسٍ‘‘ (پہلا انسان پہلا بھول جانے والا تھا)ـــ بہر حال مادہ جو بھی ہو لفظ ’’ الناس‘‘ یا تو اسمِ جمع ہے یا صیغہ جمع ہے۔ اور اس کا موزوں اردو ترجمہ ’’لوگ‘‘ ہے جو اردو میں بھی اسم جمع ہے۔ (لوگ آئے)۔ اگرچہ بعض افعال کے ساتھ (اردو میں) اس کی جمع ’’لوگوں ‘‘ بھی مستعمل ہے۔
۱:۷:۲ (۴) [مَنْ] یہ ایک مبنی (برسکون) اسم ہے (یعنی اس کا آخری ’’ن‘‘ ہمیشہ ساکن ہی ہوتا ہے سوائے اس کے کہ کبھی آگے ملانے کے لیے اس کو کسرہ (ــــــِــــ)دی جاتی ہے) ـــ اس کے معانی اور مواقعِ استعمال بھی متعدد ہیں جن کی تفصیل یوں ہے:
۱۔ کبھی یہ ’’ مَنْ ‘‘ استفہامیہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کا اردو ترجمہ ’’کون؟‘‘ سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ عربی زبان میں یہ (مَنْ) واحد تثنیہ جمع مذکر مؤنث سب کے لیے آتا ہے(انگریزی Who?کی طرح)۔ اگرچہ اردو میں حسب موقع اس کے لیے مختلف الفاظ مثلاً ’’کون‘‘ یا ’’کس‘‘ استعمال ہوئے ہیں۔ اور کبھی عبارت میں زور پیدا کرنے کے لیے ’’ مَنْ ‘‘ کے ساتھ ’’ذا‘‘ لگا دیتے ہیں۔ یعنی ’’ مَنْ ذا‘‘؟ـــ یہ ’’ذا‘‘ دراصل ’’ھذا‘‘ کی مخفّف (بلکہ اصلی) شکل ہے[ دیکھئے ۱:۱:۲ (۱)] اور اس کی اردو میں مثال ایسی ہے جیسے کہیں ’’یہ کام کس نے کیا؟‘‘ اور زور دینے کے لیے کہیں ’’۔کون ہے جس نے یہ کام کیا؟‘‘ ـ اور کبھی ’’ مَن؟‘‘ یا ’’مَن ذا؟‘‘ کے بعد آنے والے فقرے کے بعد ’’اِلاَّ‘‘ لگا کر ایک اور فقرہ لاتے ہیں جس سے اس میں استفہام انکاری یعنی نفی کے معنی پیدا ہوتے ہیں اس وقت ’’ مَنْ ‘‘ یا ’’ مَنْ ذا‘‘ کا اردو ترجمہ ’’کون‘‘ یا ’’وہ کون ہے جو‘‘ کے ساتھ کرنے کی بجائے ’’کوئی نہیں جو‘‘ کے ساتھ کرنا زیادہ موزوں لگتا ہے جیسے ’’مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللہُ‘‘ (آل عمران: ۱۳۵) اورمَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِه‘‘ (البقرہ:۲۵۵) میں آیا ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ کے اس قسم کے استعمالات پر اپنی اپنی جگہ وضاحت ہوگی ا ن شاء اللہ ۔
۲۔ کبھی ’’ مَنْ‘‘ موصولہ ہوتا ہے جو ’’ الذي‘‘ کے معنی میں آتا ہے البتہ لفظی فرق یہ ہے کہ ’’ مَنْ‘‘ واحد تثنیہ جمع مذکر مؤنث سب کے لیے استعمال ہوتا ہے (اتفاق سے اس استعمال (موصول ہونے) کے لحاظ سے بھی ’’ مَنْ‘‘ انگریز ی کے ’’Who‘‘ کی مانند ہی ہے)ـــ اور مبنی ہونے کے باعث یہ تینوں حالتوں یعنی رفع نصب جر ـــ میں یکساں رہتا ہے جب کہ ’’ الذي‘‘ کی مختلف صورتیں ہیں [دیکھئے۱:۶:۱(۱)]نیز یہ (مَنْ) زیادہ تر عاقل اشیاء کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس (مَنْ موصولہ) کا عام اردو ترجمہ تو ’’جو‘‘ ہے۔ تاہم عدد، جنس اور بعض افعال کی مناسبت سے حسب ِ موقع اس کا ترجمہ ’’جو کہ ‘‘، ’’جس نے (کہ)‘‘، ’’جس کو‘‘، ’’جس کا‘‘، ’’جنہوں نے‘‘، ’’جن (سے؍کا؍کو)‘‘ کے ساتھ کرلیاجاتا ہے۔ اس میں عموماً معرفہ کے معنی ہوتے ہیں یعنی اس کا ترجمہ ’’وہ جو ‘‘ یعنی وہ (خاص) آدمی یا لوگ جو ‘‘ ہونا چاہئے تاہم کبھی کبھی یہ (من موصولہ) نکرہ موصوفہ کے طَور پر بھی استعمال ہوتا ہے اس وقت اس کا اردو ترجمہ ’’کوئی ایسا جو‘‘یا ’’بعض ایسے جو ‘‘ سے کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔