اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • خیال رہے اگر ’’اِلَّا‘‘کے بغیر ’’ابی الذھابَ‘‘یا ’’اَبٰی اَن یذھبَ‘‘ کہیں گے تو مطلب ہوگا ’’اس نے جانے سے انکار کردیا‘‘ فعل ’’اَبٰی‘‘کے استعمال کے اس فرق (اِلَّا کے ساتھ اور [اِلَّا] کے بغیر،کو اچھی طرح سمجھ لیں ـ ـ قرآن کریم میں ’’اَبیٰ‘‘کے بعد ’’اِلَّا‘‘ کے استعمال کی بھی کم از کم چار (۴) مثالیں موجود ہیں۔

۱:۲۴:۲(۵)     [وَاسْتَکْبَرَ]’’وَ‘‘ تو عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘)ہے۔ اور ’’اِسْتَکْبَرَ‘‘ کا مادہ ’’ک ب ر‘‘اور وزن ’’اِسْتَفعَلَ‘‘ہے (اِسْتَکْبَر کا ابتدائی ھمزۃ الوصل ’’وَ‘‘ کی وجہ سے تلفظ سے گرگیا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

  • کبَر …یکبُر کَبْرًا(باب نصر سے)ہو تو اس کے معنی ہیں:’’…سے عمر میں بڑا ہونا‘‘۔ اس صورت میں یہ فعل متعدی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اور جس سے عمر کا مقابلہ ہو وہ مفعول بنفسہٖ ہو کر آتا ہے۔ مثلا کہیں گے: ’’کبَرنی (یا یکبُرنی) فلَانٌ بسَنَۃٍ‘‘ (فلاں مجھ سے عمر میں ایک سال بڑا ہے) اور جو بڑا ہو اسے ’’کابر‘‘(اسم الفاعل) کہتے ہیں۔ اسی سے پشت در پشت بڑائی یا کسی روایت کے لیے محاورہ ہے۔ ’’کابرًا عن کابرٍ‘‘ یعنی ’’بعد کے ایک بزرگ نے اپنے سے پہلے والے کسی بڑے سے چیز لی‘‘اور یہ محاورہ (کابرًا عن کابرٍ) بعض دفعہ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
  • کبِر یکبَر کِبَرًا(باب سمع سے) ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں:’’زیادہ عمر کا یعنی بوڑھا یا بڑی عمر کا یا عمر رسیدہ ہونا‘‘ مثلاً کسی انسان یا حیوان کا بلحاظ عمر بڑا ہوجانا بیان کرنا ہو تو کہیں گے ’’کَبِر الرجلُ= آدمی بڑھاپے میں پہنچا یا عمر رسیدہ ہوگیا۔ اور یہی فعل مطلقاً عمر میں بڑھ جانا یا ’’بڑا ہوجانا‘‘کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں:کَبِر الطفِلُ‘‘(لڑکا بڑا ہوگیا)۔

اس  باب (سمِع) سے یہ فعل بطور لازم استعمال ہوتا ہے اور اس سے اسم الفاعل کی بجائے صفت مشبہ ’’کبیر‘‘ آتی ہے۔ اور اسی سے ’’شیخ کبیر‘‘ بہت بوڑھے آدمی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

’’کبرُ یکبرُ کِبَرًا‘‘ (باب کرم سے) آئے تو اس کے بنیادی معنی تو وہی ’’بڑا ہونا‘‘ہیں تاہم بلحاظِ استعمال یہ حسب موقع تین مفہوم رکھتا ہے اور ان تینوں مفاہیم کے لیے اس فعل سے صفت مشبہ عموماً ’’کبیر‘‘ ہی استعمال ہوتی ہے۔

’’ (i)کسی انسان یا حیوان کا جسم اور ضخامت (جسمانی) میں بڑا ہونا‘‘ ـ اسی سے کہتے ہیں ’’الفیل حیوان کبیر‘‘ (ہاتھی بڑا جانور ہے)۔

’’ (ii) کسی چیز کا معنوی قدرو قیمت یا درجے کے لحاظ سے بڑا ہونا‘‘ـ ــ  اور اپنے موصوف کے اعتبار سے یہ اچھائی اور برائی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’فضلٌ کبیرٌ‘‘ (بڑا فضل) یا ضَلالٌ کبیرٌ (بڑی گمراہی)

(iii)کسی کام کا عمل پیرا ہونے کے لحاظ سے بڑا (بھاری، گراں یا مشکل) ہونا‘‘ـ ـ  اس صورت میں بطورِ فعل اس کے ساتھ ’’علی‘‘ کا صلہ لگتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’کبرُ علیہ الامرُ‘‘(معاملہ اس پر بھاری ہوگیا یعنی بات اس پر گراں یا شاق گزری)اس صورت میں ’’گراں اور مشکل‘‘کے لیے صفت عموماً ’’کبیرٌ‘‘ کی بجائے ’’کبیرۃٌ‘‘ استعمال ہوتی ہے۔ جس پر مزید بحث آگے۱:۳۰:۲(۲)میں  آئے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں