’’بعض‘‘سے مراد دراصل کسی چیز کا کچھ حصہ (یعنی اس کے اَبْعَاض میں سے ایک) ہوتا ہے زیادہ ہو یا کم۔ اس لیے ’’بعض‘‘ واحد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور جمع کے لیے بھی۔ اس طرح ’’بعضُکم‘‘ کا ترجمہ ’’تم میں سے کوئی ایک‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور ’’تم میں سے چند یا کچھ‘‘بھی ــ سیاق و سباقِ عبارت سے ’’بعض‘‘ کے لیے واحد یا جمع کے معنی کا تعین ہوسکتا ہے۔ زیرِ مطالعہ آیت میں بظاہر یہ (بعض) بمعنی جمع ہی آیا ہے یعنی ’’تمہارے بعض یا بعضے‘‘ کی صورت میں اور قریباً تمام ہی مترجمین نے جمع کے مفہوم میں ہی ترجمہ کیا ہے۔ غالباً صرف ایک مترجم نے بصورت واحد (ایک تمہارا) ترجمہ کیا ہے۔ تاہم اس کا بامحاورہ ترجمہ اگلے مرکب (لبعض) کے ساتھ مل کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ جیسے کہ ہم ابھی بیان کریں گے۔
]لِبَعْضٍ] میں ’’لام‘‘ (لِ)اضافت یعنی ’’کا، کے، کی‘‘کے معنی میں آیا ہے۔ جیسے نکرہ مضاف میں کہتے ہیں۔ ’’ابنٌ لَہٗ‘‘(اس کا ایک بیٹا) یا جیسے جملہ ’’لَہٗ ابنٌ‘‘ (اس کا ایک بیٹا ہے)میں ہے۔ اس طرح ’’لِبَعْضٍ‘‘کا مطلب ہوا۔ بعض یا کسی کا‘‘ [اوپر ہم نے بیان کیا ہے کہ ’’للبعض‘‘کہنا درست نہیں ہے۔ دراصل ’’لبعضٍ‘‘، لِبَعْضِکُم‘‘کی جگہ آیا ہے یعنی اس کی تنوین اضافت کے عوض میں آئی ہے جسے تنوینِ عوض بھی کہتے ہیں]
- اس طرح اس ترکیب ’’بعضُکم لبعضٍ‘‘ کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے۔ ’’تمہارا کوئی ایک؍ یا تمہارے بعض (چند) کسی بعض (ایک یا چند)کے‘‘ــ پھر اس کا سلیس اور بامحاورہ اردو ترجمہ ہوگا۔ ’’تم (باہم) ایک دوسرے کے‘‘یا ’’تم (آپس میں) ایک دوسرے کے‘‘ـ ـ اور بیشترمترجمین نے یہی بامحاورہ ترجمہ اختیار کیا ہے۔
۱:۲۶:۲(۷) [عَدُوٌّ] کا مادہ ’’ع د و‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعُوْلٌ‘‘ہے اس کی اصل صورت ’’عَدُوْوٌ‘‘ تھی جس میں ساکن اور متحرک واو کے مدغم ہونے سے ’’تشدید‘‘پیدا ہوئی ہے۔
اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’عدا یَعدُوْ (دراصل عدَوَ یَعْدُوْ) عَدْوًا‘‘(باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو ہیں: ’’دوڑنا، دوڑ لگانا یا دوڑتے جانا‘‘ــ پھر اس سے اس فعل میں "(کسی حد سے) بڑھ جانا،تجاوز کرجانا"کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی اس کے ساتھ ’’علی‘‘ کا صلہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’عداعلیہِ‘‘کے معنی ہیں:’’اس نے اس پر زیادتی کی‘‘ (یعنی ظلمَہ)۔ اسی طرح ’’عن‘‘کے صلہ کے ساتھ ’’عدا عَنْہ‘‘کے معنی ہیں: ’’اس سے آگے بڑھ گیا یا اسے چھوڑ دیا‘‘ـ اور کبھی کسی صلہ کے بغیر اپنے اصل معنی (حد سے بڑھنا)کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
- قرآن کریم میں یہ فعل مجرد صلہ کے بغیر دو جگہ (النساء:۱۵۴ اور الاعراف: ۱۶۳) اور ’’عَنْ‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی ایک جگہ (الکھف:۲۸) استعمال ہوا ہے ـ مگر ’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ کہیں نہیں آیا۔ اور مزید فیہ کے بعض ابواب (مثلاً مفاعلہ، تفعل اور افتعال) سے بھی افعال کے مختلف صیغے بیس (۲۰)کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ اور مشتق و جامد اسماء اور مصادر ساٹھ (۶۰)سے زیادہ جگہ وارد ہوئے ہیں۔
- زیر مطالعہ لفظ (عدوّ) اس مادہ (ع د و) سے بظاہر اسم مبالغہ کا ایک صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ حد سے گزر جانے والا۔ تاہم یہ بطور اسم صفت استعمال نہیں ہوتا (جیسا کہ اسمائے مبالغہ عموماً استعمال ہوسکتے ہیں)۔ اس کا اردوترجمہ ’’دشمن‘‘ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ واحد جمع اور مذکر مؤنث کے لیے یکساں رہتا ہے یعنی ’’ھُوَ عَدُوٌّ / وھم عدُوٌّ/ و ھی عدُوٌّ‘‘ کہہ سکتے ہیں البتہ تثنیہ کے لیے ’’عدوّانِ‘‘ اور کبھی مونث کے لیے ’’عدوۃٌ‘‘بھی استعمال ہوتا ہے (قرآن کریم میں نہ تثنیہ کا صیغہ آیا ہے نہ مؤنث کا)۔ اور اس کی جمع مکسر ’’اَعْدائٌ‘‘ہے جو قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ’’عدوّ‘‘ ۴۳ جگہ ( واحد اور جمع دونوں معنی میں) اور لفظ ’’اعداء‘‘سات جگہ استعمال ہوا ہے۔ دشمنی کے لیے عربی میں لفظ ’’عداوۃ‘‘ہے (اور یہ بھی قرآن میں معرفہ نکرہ کل چھ دفعہ آیا ہے)۔ اور ’’دشمنی رکھنا یا کرنا‘‘کے لیے فعل باب مفاعلہ سے ’’عادَیٰ یُعادِی‘‘ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ یہ سب چیزیں اپنے اپنے موقع پر زیرِ بحث آئیں گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔