اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ  آیت نمبر  ۹۴ اور ۹۵

۲ : ۵۸       قُلۡ اِنۡ کَانَتۡ لَکُمُ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ عِنۡدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۹۴﴾وَ لَنۡ یَّتَمَنَّوۡہُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۹۵﴾ 

۱:۵۸:۲       اللغۃ

اس قطعہ میں پہلی دفعہ آنے والے نئے مادے (یا ان سے بنے لفظ) تو صرف چار ہیں۔ پہلی آیت ایک مکمل شرطیہ جملہ ہے مگر اس میں بھی بیان شرط والا حصہ خاصا لمبا ہے، لہٰذا ہم اس کے الگ الگ کلمات سے بحث کرنے کے بعد اس کے ترجمہ کی بات کریں گے۔

۲: ۵۸: ۱ (۱)    [قُلْ اِنْ کَانَت لَکُمْ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِنْ دُوْنِ النَّاسِ]

(۱) ’’قلْ‘‘ (تو کہہ، آپ فرما دیجئے، کہہ دیجئے) مادہ، وزن وغیرہ کی بحث کے لیے دیکھئے [۲: ۵۰: ۱ (۲)]

(۲) ’’اِنْ‘‘ (اگر)’’اِنْ‘‘  شرطیہ کے استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ:۲۳ [۲: ۱۷: ۱(۱)]

(۳) ’’کانت‘‘ (تھی، ہے) یہ فعل ناقص ’’کان یکون‘‘ کا صیغہ ماضی واحد مؤنث غائب ہے۔ اس فعل کے معنی و استعمال اور تعلیل وغیرہ پر البقرہ:۱۰ [۲: ۸: ۱(۱۰)] میں بات ہوئی تھی۔ ’’کَانَتْ‘‘ کا وزن ’’فَعَلْت‘‘ اور شکل اصلی ’’کَوَنَتْ‘‘ جس میں واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل جاتی ہے۔ فعل کا یہ صیغہ دراصل تو ماضی کا ہے مگر شرط کی وجہ سے ترجمہ حال یا مستقبل میں کیا جائے گا۔

(۴) ’’لَکُمْ‘‘ (تمہارے لیے، تمہارا) لام الجر اور ضمیر مجرور کا مرکب ہے، یہاں ’’خبر مقدم‘‘ کے طور پر آنے کے وجہ سے ترجمہ ’’تمہارے ہی لیے/ تمہارا ہی‘‘ سے ہوگا۔

(۵) ’’ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ ‘‘ (آخرت کا گھر، پچھلا گھر) یہ دراصل تو مرکب توصیفی ہے مگر اردو محاورے کی بنا پر اس کا ترجمہ مرکب اضافی کی طرح کردیا گیا ہے، اگرچہ بعض نے ’’پچھلا گھر‘‘ کے ساتھ بھی ترجمہ کیا ہے۔ اس میں لفظ ’’الدار‘‘ کا مادہ ’’د  و ر‘‘ اور وزن اصلی (لام تعریف کے بغیر) ’’فَعَلٌ‘‘ تھا۔ اصلی شکل ’’دَوَرٌ‘‘ تھی جس میں واؤ متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لفظ ’’دار‘‘ بنتا ہے جس کے معنی ہیں ’’گھر‘‘۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۸۴ [۱:۵۲:۲(۱)]  میں کلمہ ’’دِیار‘‘ کے سلسلے میں بات ہوئی تھی۔ ’’دار‘‘ اسی ’’دیار‘‘ کا واحد ہے۔ دوسرے لفظ ’’الاٰخرۃ‘‘ کے مادہ، وزن اور اس سے فعل مجرد وغیرہ اور ’’آخرت‘‘ کے اصطلاحی معنی پر مکمل بحث البقرہ:۴ [۱:۳:۲ (۵)] میں کی جاچکی ہے۔ اس لفظ کا اصلی ترجمہ تو ہے ’’سب سے پیچھے آنے والی‘‘۔ لفظ ’’الدار‘‘ (گھر) چونکہ عربی میں مؤنث ہے اس لیے اس کی صفت (عربی میں تو) مؤنث ہی لائی گئی ہے۔ اردو میں لفظ ’’گھر‘‘ مذکر ہے اس لیے ’’الآخِرۃ‘‘ کا ترجمہ ’’الآخِر‘‘ (مذکر) کی طرح ’’پچھلا‘‘ کیا گیا ہے۔ تاہم اکثر نے اردو محاورے کی خاطر اس ترکیب توصیفی کا ترجمہ ترکیب اضافی کی طرح ’’آخرت کا گھر‘‘ ہی کیا ہے، ورنہ اس کا ترجمہ تو ’’ آخری گھر‘‘ یا ’’پچھلا گھر‘‘ ہی ہے۔ بعض نے ترجمہ ’’عالم آخرت‘‘ کرلیا ہے، جو بہرحال فارسی کی ترکیب اضافی ہی ہے۔ قرآن کریم میں یہ دونوں کلمات اس طرح ترکیب توصیفی (الدار الاخرۃ) کی شکل میں سات جگہ آئے ہیں مگر دو جگہ مرکب اضافی (دارُ الاخرۃِ) کی صورت میں بھی آئے ہیں جس کا لفظی ترجمہ ہی ’’آخرت کا گھر‘‘ بنتا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں