اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • لفظ ’’قبْل‘‘ کے استعمال کی یہ تینوں (مذکورہ بالا) صورتیں قرآنِ کریم میں بکثرت (کل ۸۲۴۴ دفعہ) استعمال ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ عربی زبان میں کبھی ـــ خاص شرائط کے ساتھ ـــ یہ لفظ تنوین نصب کے ساتھ یعنی ’’ قَبلًا ‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم اس کا یہ استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا ـــ اردو میں چونکہ لفظ ’’قبل‘‘ اپنے عربی معنی (بعد کی ضد) میں مستعمل ہے مثلا ’’قبلِ ظہر‘‘ یا ’’قبل از وقت‘‘ میں ـــ اس لیے ’’مِنْ قَبْلِکَ‘‘ کا ترجمہ ’’آپ سے قبل‘‘ اس اصول کی بنا پرزیادہ مناسب ہے کہ ’’اگر قرآن کریم کا کوئی لفظ اردو میں اپنے اصل معنوں کے ساتھ مستعمل اور متعارف ہو یا بلحاظ اشتقاق اس (قرآنی لفظ)سے قریب تر لفظ موجود ہو تو اس کا اردو ترجمہ اسی لفظ کے ساتھ کرنا زیادہ موزوں اور بہتر ہے‘‘۔ تاہم عوام کے لئے شاید ’’قبل‘‘ کی بجائے ’’پہلے‘‘ کا لفظ زیادہ سہل اور زیادہ مانوس ہے۔

۱:۳:۲ (۵)     [وَبِالْاٰخِرَةِ]دراصل ’’وَ‘‘ (واو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘) +بِ (باء الجربمعنی ’’کے ساتھ؍پر‘‘) +الاخرۃ (جس کے معنی ابھی بیان ہونگے) کا مرکب ہے۔ ’’الاٰخرۃ‘‘ کا لامِ تعریف ہٹادیں تو اصل لفظ ’’آخرۃ‘‘ نکل آتا ہے۔ (یہ لفظ عام عربی املاء(رسم معتاد)ـــ بلکہ اردو میں بھی اسی طرح ’’ آ ‘‘ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اس کے قرآنی ضبط پربات ابھی آگے ’’الضبط‘‘ کی بحث میں ہوگی) ۔ اس لفظ (آخرۃ) کا مادہ ’’أخ ر‘‘اور وزن ’’فاعِلَۃٌ‘‘ہے۔ یہ ’’ آ ‘‘ دراصل ئَ+ا=’’فَا‘‘ ہے یعنی یہ ’’الف‘‘بِنائی (اشتقاق کا) ہے کسی ’’و‘‘ یا ’’ ی‘‘ سے بدل کر نہیں بنا۔

  • اس مادہ (أخر) سے فعل ثلاثی مجرد عربی میں استعمال ہی نہیں ہوتا۔ البتہ مزید فیہ کے بعض ابواب (تفعیل، تفعّل اور استفعال) سے بعض افعال اور کچھ دیگرمشتقات قرآن کریم میں آئے ہیں جن کابیان اپنی اپنی جگہ پر آئے گا۔ ’’آخرۃ‘‘ اپنے وزن کے لحاظ سے مادہ ’’أ خ ر‘‘سے اسم الفاعل (آخِرٌ) کا صیغۂ تانیث ہے۔ یہ لفظ اس لحا ظ سے قابلِ توجہ ہے کہ اسم الفاعل (بروزن ’’فاعل‘‘) تو ہمیشہ فعل ثلاثی مجرد ہی سے آتا ہے اور اس مادہ (أخ ر)سے فعل ثلاثی مجرد استعمال ہی نہیں ہوتا جس کے معنی ’’پیچھے یا اخیر پر آنا‘‘ ہوں۔ تاہم اس کے اسم الفاعل میں یہی معنی موجود ہیں۔ یعنی اس کے اس صیغہ تانیث کے معنی ہیں ’’اخیر پر؍پیچھے آنے والی‘‘ چونکہ اردو میں لفظ ’’آخر‘‘ (بمقابلہ اول) اپنے عربی معنوں میں مستعمل ہے۔ اس لئے ’’آخرۃ‘‘ کا ترجمہ ’’(سب سے) آخر پر آنے والی‘‘ بمقابلہ اُولٰی) بھی کیا جاسکتا ہے۔
  • اپنے معنی کے لحاظ سے لفظ ’’الآخرۃ‘‘ صفت (نعت) ہے۔ اس لئے یہاں ایک موصوف محذوف یا مقدر (Understood) ہے۔ یعنی ’’اَلدارُ الاٰخِرۃ‘‘ یا ’’اَلحیاۃُ الآخرۃ‘‘ یا ’’النَشأۃ الآخِرۃ‘‘ (آخری پیدائش) یعنی مرنے کے بعد آنے والی زندگی۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ہر جگہ معرّف باللام ہی آیا ہے۔ جس میں ’’لام‘‘ عہد کا ہے یعنی وہ آخری زندگی جس پرایمان لانا دین اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور جس کا ذکر (قرآن کریم میں) بار بار آیا ہے۔
  • اور اپنے ان (مذکورہ بالا) معنوں کے لحاظ سے یہ لفظ’’الآخرۃ‘‘ ایک اسلامی اصطلاح ہے جو اسلام نے عربی زبان کو دی ہے اور جس کے مفہوم اور معنی کی قرآن کریم نے تفصیل اور تکرار کے ساتھ وضاحت کردی ہے۔ [اور ’’آخرۃ‘‘ کے ان معنوں کو کفارِ مکہ بھی سمجھتے تھے اور اسی لئے وہ (ان معنوں کے لحاظ سے ہی) آخرت کا انکار کرتے تھے یعنی آخرت کی زندگی۔ مرنے کے بعد آنے والی زندگی کے ہی تو وہ منکر تھے] اور اپنے ان ہی اسلامی اصطلاحی معنوں میں یہ لفظ اردو، فارسی اور ترکی میں ’’آخرت‘‘ کی املاء کے ساتھ مستعمل ہے۔ اور بہت سی اسلامی زبانوں میں اس کا لفظی ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اور یہی وجہ ہے کہ اردو فارسی کے تمام مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’آخرت‘‘ ہی کیا ہے۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں