- اس طرح اس پورے جملہ (لَا تَسۡفِکُوۡنَ دِمَآءَکُمۡ) کا لفظی ترجمہ بنا ’’تم نہیں بہاؤ گے تمہارے (یعنی ’’اپنے‘‘) خون/ لہو‘‘۔ پھر ’’اپنے خون ‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ ’’اپنوں کا خون/ اپنے خون/ آپس میں خون‘‘ سے کیا گیا ہے اور چونکہ خون کے لیے جمع کا صیغہ ’’دِمَاء‘‘ آیا ہے (یعنی ’’خونوں‘‘ کو نہیں بہاؤگے) اس مفہوم کو بامحاورہ ترجمہ میں ’’باہمی خون ریزی‘‘ اور ’’آپس میں کشت و خون‘‘ سے ظاہر کیا گیا ہے۔ اور چونکہ یہاں بھی (قطعہ۵۱:۲ کے ’’لا تعبدون‘‘ کی طرح) صیغہ مضارع منفی ’’میثاق‘‘ اور ’’قول و قرار‘‘ کی شرائط کے بیان میں آیا ہے اس لیے اس میں دراصل فعل نہی کا مفہوم ہے۔ اس لیے ’’ لَا تَسْفِكُوْنَ ‘‘ کا ترجمہ ’’اَن لا تسفکوا‘‘ کی طرح، کہ تم مت بہاؤ‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے جس کی بامحاورہ صورتیں ’’(خون) نہ کرنا، (خون) نہ بہانا، (خونریزی) مت کرنا‘‘ اختیار کی گئی ہیں جن میں نہی کے ساتھ تاکید کا مفہوم بھی ہے۔ اگرچہ بعض نے لفظی ترجمہ فعل مضارع ہی کے ساتھ ’’نہ کرو گے خون‘‘ سے بھی کیا ہے۔
۱:۵۲:۲ (۱) [وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَکُمْ مّنْ دِیَارِکُمْ] اس عبارت میں ابتدائی ’’وَلَا‘‘۔ واوِ عاطفہ اور ’’لا‘‘ نافیہ ہے۔ ’’لا‘‘ کی تکرار (ایک پہلے ’’ لَا تَسْفِكُوْنَ ‘‘ میں آیا ہے) کے باعث یہاں ’’وَلَا‘‘ کا ترجمہ اور نہ ہی ہوگا۔
’’تُخْرِجُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’خ ر ج‘‘ اور وزن ’’تُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے یعنی یہ اس مادہ سے باب افعال کا فعل مضارع صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (’’خَرج یخرُج‘‘= نکلنا) پر البقرہ:۷۴ [۱:۴۶:۲ (۵)]میں اور باب افعال(اخرج یُخرِج اِخراجًا =نکالنا) کے معنی وغیرہ پر البقرۃ: ۲۲ [۱:۱۶:۲ (۱۰)]میں بات ہوچکی ہے۔
’’اَنْفُسَکُمْ‘‘ کے ابتدائی حصہ’’اَنْفُس‘‘ (جو ’’نَفْسٌ‘‘ کی جمع مکسر ہے) کے مادہ وغیرہ کی بات البقرہ:۹ [۱:۸:۲ (۴)]میں ’’انفسھم‘‘ کے ضمن میں ہوچکی ہے ’’انفسکم‘‘ کا ترجمہ ہے ’’تمہاری/ اپنی جانوں کو‘‘۔
’’مِنْ دِیَارِکُم‘‘ کے شروع میں ’’مِنْ‘‘ (بمعنی ’’میں سے‘‘) ہے اور آخر پر ضمیر مجرور ’’کُمْ‘‘ (بمعنی تمہارا/ تمہارے) ہے۔ اور باقی لفظ’’دِیَارٌ‘‘ (جو یہاں مجرور اور خفیف آیا ہے جس کی وجہ آگے ’’الاعراب‘‘ میں دیکھئے) کا مادہ ’’د و ر‘‘ اور وزن ’’فِعَالٌ‘‘ ہے ۔ یہ دراصل ’’دِوَار‘‘ تھا۔ پھر واوِ مفتوحہ ماقبل مکسور ’’یاء‘‘ میں بدل کر لکھی بولی جاتی ہے (جیسے ’’رَضِوَ ‘‘سے ’’رَضِیَ ‘‘ہوجاتا ہے) اور لفظ ’’دیار ‘‘ ہوجاتا ہے۔
- اس مادہ سے فعل مجرد ’’دارَ یدُور دَوْرًا‘‘ (نصر سے) کے بنیادی معنی ہیں: ’’گھومنا۔ گھوم جانا‘‘ عموماً یہ بطورفعل لازم ہی استعمال ہوتا ہے اور ’’بِ‘‘ یا ’’علٰی‘‘ کے صلات کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے اور کبھی بطور فعل متعدی ’’گھمانا اور لپیٹنا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے مثلاً ’’دارالعمامَۃَ حولَ راَسہ‘‘ (اس نے اپنے سر کے گرد پگڑی لپیٹی)۔ تاہم قرآن کریم میں یہ فعل مجرد صرف بطور فعل لازم اور بغیر کسی صلہ وغیرہ کے صرف اپنے ابتدائی معنی (گھومنا) میں صرف ایک جگہ (الاحزاب:۱۹) استعمال ہوا ہے۔ اور اس سے مزید فیہ کے بابِ افعال سے بھی ایک ہی صیغہ فعل (البقرہ:۲۸۲) آیا ہے۔ اس کے علاوہ اس مادہ سے مشتق اور ماخوذ (مثلاً دار، دیار، دیّار، دائرۃ اور دوائر) متعدد جگہ آئے ہیں جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔