اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

قرآن کریم میں اس (فعل ثلاثی مجرد) سے ماضی، مضارع، امر اور نھی کے مختلف صیغے پچاس کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ اور مزید فیہ کے صرف باب افتعال سے کچھ صیغے آٹھ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی مادہ سے کلمات ’’زیادۃ‘‘ (مصدر) دو دفعہ، لفظ ’’مزید‘‘ (اسم مفعول) بھی دو جگہ اور ’’زید‘‘ (نام) صرف ایک جگہ آئے ہیں۔ زیر مطالعہ حصہ آیت ’’ فزادھم اللہ مرضا‘‘ کے لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کے فرق اور اس کی وجہ پر ہم ابھی آگے بحث ’’الاعراب‘‘ میں بات کریں گے۔ ان شاء اللہ۔

۱:۸:۲(۹)     [وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌۢ] یہ بھی ایک مکمل جملہ ہے جس میں نیا لفظ ’’الیم‘‘ہے۔ ’’وَلَھمعذاب‘‘پر بات البقرہ:۷ میں گزر چکی ہے۔ [دیکھئے:۔۱:۶:۲(۶)]

            لفظ[ اَلِيْمٌۢ] کا مادہ ’’ا ل م‘‘ اور وزن ’’فعیل‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’اَلِمَ یَألَمُ اَلَمًا‘‘ (باب سمع سے) آتا ہے۔ اور اس کے بنیادی معنی ہیں : درد ہونا (مثلاً سر یا پیٹ میں) پھر اس سے اس کا ترجمہ ’’درد میں مبتلا ہونا،  درد کھینچنا،  دکھ اٹھانا،  دکھ پہنچنا،  تکلیف ہونا،  تکلیف پہنچنا،  بے آرام ہونا‘‘  وغیرہ سے کیا جاتا ہے۔ (یہ تمام معنی مختلف تراجمِ قرآن پر مبنی ہیں) ۔قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے دو تین صیغے ایک ہی آیت میں آئے ہیں(النساء:۱۰۴) اور جو ’’درد، تکلیف یا دکھ‘‘ میں مبتلا ہو اسے اَلِمٌ (فَرِحٌ کی طرح) کہتے ہیں۔ (یہ لفظ (اَلِمٌ) قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا) بنیادی طور پر یہ فعل (اَلِمَ یا لَمُ)لازم ہے۔ عربی زبان کے محاورے میں بعض دفعہ یہی فعل متعدی کی طرح ’’درد پیدا کرنا یا دکھ دینا‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے۔[1]    تاہم قرآن کریم میں نہ تو اس کا یہ(متعدی) استعمال ہوا ہے اور نہ ہی اس کے مزید فیہ ابواب سے کوئی فعل ـــ

            البتہ زیر مطالعہ لفظ (الیم) میں یہ متعدی والے معنی موجود ہیں یعنی ’’دکھ دینے والا‘‘ـــ بیشتر اہل لغت نے ’’ الیم‘‘ بمعنی ’’مُؤلِمٌ‘‘ مراد لیا ہے جو اس مادہ سے باب ِافعال ـــ آلَمَ یُؤلِمُ اِیْلَامًا (دکھ دینا، درد پیدا کرنا) سے اسم الفاعل ہے ـــ یہ لفظ (الیم)اپنے وزن ’’فَعِیْلٌ‘‘کی بناء پر صفت مشبہ ہے۔ صفت مشبہ کا یہ وزن (فعیل)اسم الفاعل اور کبھی اسم المفعول کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے دوسرے اس میں ’’دوام‘‘ اور ’’لزوم‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے (جو صفت مشبہ کی ایک خاصیت ہے) یعنی ’’یہاں‘‘ دائمی درد ناک عذاب ‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ راغب اصفہانی نے تو (المفردات میں) وزن ’’فعیل‘‘ میں شدّت کا مفہوم بھی شامل سمجھا ہے۔ یعنی دائمی شدید درد ناک عذاب‘‘۔ ویسے خود لفظ’’عذاب‘‘ میں بھی ’’سخت سزا‘‘ کا مفہوم موجود ہے یہ کلمہ (الیم) مختلف صورتوں میں ستر(۷۰)سے زائد مقامات پر (قرآن کریم میں) آیا ہے۔

۱:۸:۲ (۱۰)     [بِمَا كَانُوْا] یہ دراصل بِماکانوا کا مرکب ہے۔ جس میں ’’بِ‘‘ یہاں سببیت کے لیے یعنی ’’بوجہ، کے سبب سے‘‘ کے معنوں میں [’’باء‘‘(بِ)کے مختلف معانی اور استعمالات پر شروع میں استعاذہ کی بحث میں بات ہوچکی ہے۔ ] ’’ما‘‘ یہاں موصولہ ہے بمعنی ’’جوکہ‘‘ [ ’’ما‘‘کے معانی کے لیے دیکھئے ۱:۲:۲(۵)]  اس طرح ’’ بِمَا ‘‘کا ترجمہ ہوگا ’’بسبب اس کے جو کہ‘‘ یا ’’اس چیز کے سبب سے جو کہ‘‘ــ  اور

________________________________

    [1]  اگر چاہیں تو ’’اَلِمَ‘‘ کے ان معنی اور فعل ’’دجِعَ‘‘، ’’سفِہ‘‘ اور ’’رشِد‘‘ کے ساتھ مشابہ استعمال کے لیے کسی اچھی عربی ڈکشنری کی طرف رجوع کریں۔ ’’سَفِہَ‘‘ پر البقرہ:۱۳۰ میں بات ہوگی۔ (ان شاء اللہ)

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں