اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۸۳

۵۱:۲    وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ ۟ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ ذِی ‌الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا وَّ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ ثُمَّ تَوَلَّیۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۸۳﴾

۲: ۵۱:  ۱      اللغۃ

[وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ] یہ ایک مکمل جملہ ہے جو کل چھ کلمات پر مشتمل ہے۔ ان تمام کلمات کی لغوی بحث اس سے پہلے گزر چکی ہے۔ مثلاً

(۱)   ’’ وَ ‘‘ جو یہاں مستانفہ ہے جس کا مفہوم تو ’’اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ‘‘  کا ہوتا ہے مگر اردو میں اس کا ترجمہ بھی صرف ’’اور‘‘ سے کرلیا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے [۱:۷:۲ (۱)]

(۲)  ’’اِذْ‘‘ ظرف بمعنی ’’جب کہ/جس وقت‘‘ ہے۔ اس کے استعمال اور اس سے پہلے ایک محذوف فعل (اذکروا=یاد کرو) کے مفہوم کے بارے میں دیکھئے البقرہ:۳۰ [۱:۲۱:۲ (۱)]

(۳)  ’’اَخَذْنَا‘‘ جس کا مادہ ’’ا خ ذ‘‘ اور وزن ’’فَعَلْنَا‘‘ ہے، کے فعل مجرد (اَخَذَ یَاْخُذُ = پکڑنا۔ لینا) پر البقرہ:۴۸ [۱:۳۱:۲ (۵)] میں بات ہوئی تھی اور خود زیر مطالعہ صیغہ ’’اَخَذْنَا‘‘ کے لیے دیکھئے البقرہ: ۶۳ [۱:۴۱:۲ (۱)] یہاں اَخَذْنَا کا ترجمہ ہوگا: ہم نے لیا۔

(۴) ’’مِیْثَاقَ‘‘ جس کا مادہ ’’و ث ق‘‘ اور وزن ’’مِفْعَال‘‘ ہے، کے فعل مجرد (وَثِقَ۔ یَثِقُ= اعتماد کرنا) کے معنی و استعمال اور خود اس لفظ ’’میثاق‘‘ کی ساخت، اس میں ہونے والی تعلیل اور اس کے معانی (قول و قرار، عہد وغیرہ) کے لیے دیکھئے البقرہ:۲۷ [۱:۱۹:۲ (۱۴)]

صیغہ ’’اَخَذْنَا‘‘ قرآن کریم میں ۲۶ جگہ آیا ہے جن میں سے دس جگہ اس کا استعمال ’’میثاق‘‘ کے ساتھ (معنی عہد لینا۔ قرار لیناوغیرہ) آیا ہے۔ باقی استعمالات (مثلاً عذاب میں پکڑنا وغیرہ) حسبِ موقع بیان ہوں گے۔

  • ۵/۶ ’’بَنِی اِسْرَائِیْل‘‘ جس کا ابتدائی (مضاف) کلمہ ’’بَنِی‘‘ لفظ ’’ابن‘‘ کی جمع سالم (بنونَ) کی ’’مجرور‘‘ اور خفیف (بوجہ اضافت) صورت ہے۔ اس اسرائیل سے مراد حضرت یعقوبؑ ہیں۔ ترکیب (بنی اسرائیل) کی مکمل لغوی بحث البقرہ:۴۰ [۱:۲۵:۲ (۱)] میں ہوچکی ہے البتہ وہاں ’’بنی اسرائیل‘‘ منادیٰ آیا تھا (اے بنی اسرائیل) مگر یہاں یہ لفظ ’’میثاق‘‘ کا مضاف الیہ ہوکر آیا ہے۔ اکثر مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ ’’بنی اسرائیل‘‘ ہی سے کیا ہے، اگرچہ اس کا لفظی ترجمہ ’’اسرائیل کے بیٹے/اسرائیل کی اولاد‘‘ ہوسکتا ہے۔
  • اس طرح اس عبارت (وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور جب ہم نے لیا عہد اسرائیل کے بیٹوں/کی اولاد/کا‘‘ . . . جس کی سلیس اور بامحاورہ صورت کے لیے ’’ کا ‘‘ کی بجائے ’’سے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کرنا ہوگا  . . . اور  اس طرح میثاق کے مختلف معانی کے ساتھ ترجمہ کرتے ہوئے اس عبارت کے تراجم ’’ہم نے لیا قول/اقرار/قول قرار/پکا عہد. . . بنی اسرائیل سے‘‘ کی شکل میں کیے گئے ہیں۔ نیز اردو ترکیب میں ’’بنی اسرائیل سے‘‘ شروع میں اور فعل اور مفعول کا ترجمہ بعد میں لانا پڑتا ہے۔ بعض حضرات نے ترجمہ کے ساتھ بعض تفسیری اضافے کردئیے ہیں مثلاً ’’بنی اسرائیل‘‘ (کے اگلے لوگوں) سے‘‘ یا مثلاً ’’(توریت) میں عہد لیا‘‘ وغیرہ . . . . . جوترجمہ کی حد سے تجاوز ہے۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں