اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۴۰  اور ۴۱

 ۲۸:۲ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ ۚ وَ اِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ ﴿۴۰﴾وَ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ وَ لَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ ۪ وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۫ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوۡنِ ﴿۴۱﴾    

۱:۲۸:۲      اللغۃ

۱:۲۸:۲ (۱)     [یٰبَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ]جسے عام رسم املائی میں’’یا بنی اسرائیل‘‘ لکھا جاتا ہے۔ یہ تین کلمات ’’یا‘‘، ’’بنی‘‘ اور’’اسرائیل‘‘  کا مرکب ہے۔ اس میں ’’یا‘‘  تو نِداء کا ہے جس کا عام اردو ترجمہ ’’اے‘‘  ہے۔ عربی حروفِ نداء اور ان کے استعمال پر البقرہ: ۲۱ یعنی ۱:۱۶:۲ (۱) میں مفصل بات ہوئی تھی۔

’’ بَنِیْ‘‘ دراصل ’’بنینَ‘‘  تھا مگر آگے مضاف ہونے کے باعث آخری نون (اعرابی) گر کر ’’ بنِیْ‘‘ رہ گیا ہے اور یہ’’بنین‘‘بھی در اصل ’’بَنُوْنَ‘‘ کی حالت نصب ہے (جس کی وجہ ‘‘الاعراب’’ میں بیان ہوگی) اور ’’ بَنُوْنَ‘‘ لفظ ’’اِبنٌ‘‘کی جمع مذکر سالم ہے [جو صحیح معنوں میں تو جمع سالم نہیں ورنہ ’’ اِبْنُونَ‘‘ ہوتی۔ تاہم آخر کی اعرابی علامت ’’ ـــــُـــــ  وْن‘‘ یا ’’ ـــــِــــ یْنِ‘‘ کی وجہ سے یہ بھی جمع سالم ہی شمار ہوتی ہے]۔

لفظ ‘‘اِبْنٌ’’کا مادہ’’ب ن ی‘‘ ہے۔ اگرچہ بعض نے اس کا مادہ’’ ب ن و ‘‘ قرار دیا ہے ۔ [1] اس کی اصلی شکل ’’ بَنَوٌ‘‘ یا’’ بَنَیٌ‘‘ بروزن ’’ فَعَلٌ ‘‘تھی پھر آخری’’یَاء‘‘ یا  ’’واو ‘‘ کو ثقیل سمجھ کر گرا دیا گیا۔ اور اس کے عوض شروع میں ھمزۃ الوصل لگا دیا گیا (جو بصورت وصل تلفظ سے ساقط ہو جاتا ہے)۔ اسی قسم کا عمل لفظ ’’اسمٌ‘‘ میں بھی ہوا ہے۔ دیکھئے سورۃ الفاتحہ میں بحث بسم اللہ [۱:۱:۱ (۱)] اور اس (ابنٌ) کی جمع سالم ’’ بَنُوْنَ ‘‘آنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ دراصل لفظ’’بَنَوٌ‘‘ (یا  بَنیٌ) سے جمع سالم ’’ بَنَوُوْنَ‘‘(یا  بَنَیُوْنَ) ہے جس میں خلاف قیاس ’’و‘‘ یا  ’’ ی ‘‘ کا ضمہ (ہے) ماقبل (متحرک) کو دے کر اس (’’واو‘‘ یا    ’’یاء ‘‘  کو حذف کردیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اصل ’’ بَنْوٌ‘‘ یا ’’  بَنْیٌ‘‘ بروزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہو تو پھر اس سے جمع سالم’’ بنیُون‘‘ یا ’’  بَنْوُون‘‘ قاعدہ قیاس کے مطابق’’  بَنُون‘‘ ہی بن جاتی ہے۔

________________________________

 [1] اور ہر ایک فریق کے کچھ دلائل ہیں۔ تفصیل چاہیں تو دیکھئے التبیان (للعکبری) ج ۱ ص ۵۷ اعراب القرآن (للنحاس) ج ۱ ص ۲۱۷ معجم الاعلال والابدال (للخراط) ص ۵۳۔ نیز البستان، اقرب الموارد اور مد القاموس (LANE) تحت مادہ ’’ ب ن ی‘‘۔

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں