اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

۱:۳۱:۲(۴)     [شَفَاعَۃٌ] کا مادہ ’’ش ف ع‘‘ اور وزن ’’فَعَالَۃٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’شفَع یشْفَع‘‘ (باب فتح سے) آتا ہے اور مختلف مصادر اور صلات کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے مثلاً (۱) شفَع …یشفَع شَفْعًا کے ایک معنی ہیں۔ ’’…کے ساتھ ویسی ہی ایک اور شے ملانا۔ یعنی طاق (عدد) کو جُفت (عدد) بنادینا، مثلاً کہتے ہیں: شفَع الشَئَی شَفْعًا (اس نے چیز کا جوڑ ابنا دیا) اور اسی فعل کے ایک معنی کسی کو حقِ شفعۃ (جائیداد کی خرید میں قانوناً حقِ فوقیت ) دینا بھی ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ’’شفَع جارَہ یا بجارِہ‘‘ (اس نے پڑوسی کو حقِ شفعہ دیا) (۲) اور شفَع یشفَع شفاعۃً‘‘ کے معنی ہیں ’’سفارش کرنا‘‘ پھر ان معنوں کے لیے یہ فعل کئی صلات کے ساتھ (مختلف مفہوم کے لیے) استعمال ہوتا ہے مثلا (الف ’’شفَع لہ او لِزیدٍ‘‘  کا مطلب ہے ’’اس نے اس کے یا زید کے حق میں سفارش کی۔ یعنی ’’لِ‘‘کا صلہ ’’…کے حق میں …کے لیے‘‘ کا مفہوم دیتا ہے۔ (ب) اور ’’شفَع فی الامر‘‘ کا مطلب ہے‘‘ اس نے اس معاملے میں سفارش کی ’’یعنی "فی" کا صلہ اس کام پر آتا ہے جس کے بارے میں سفارش کی جائے (ج) اور ’’شفع اِلی فلانٍ‘‘کا مطلب ہے ’’اس نے فلاں کی سفارش طلب کی یعنی اس سے سفارش چاہی‘‘اور (د) ’’شفَع عندَہ ‘‘ کا مطلب ہے  ’’اس نے اس کو (سے) سفارش کی۔ مثلاً آپ ان سب استعمالات کو یوں جمع کرسکتے ہیں۔ شفَع زیدٌ الی بکرٍ فشفَع بکرٌ لزیدٍ فی امر توظیفہ عند صدیقہ‘‘ (زید نے بکر سے سفارش طلب کی پس بکر نے زید کے لیے اس کی ملازمت کے بارے میں اپنے دوست کو سفارش کی)۔

  • یہ فعل بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے تاہم قرآن کریم میں یہ فعل صرف مندرجہ بالا دوسرے معنی (سفارش کرنا) کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ اور اس کے لیے اس فعل مجرد کے صیغے پانچ جگہ آئے ہیں اور قرآن میں اس فعل کا استعمال صرف ’’عندَ‘‘ اور ’’لِ‘‘کے ساتھ ہی ہوا ہے جیسے ’’… يَشْفَعُ عِنْدَه ‘‘ (البقرہ:۲۵۵) اور ’’ … فَيَشْفَعُوْا لَنَآ ‘‘ (الاعراف:۵۳) ـ’’فی، بِ یا الی کے ساتھ اس کا استعمال قرآن میں نہیں آیا۔ البتہ بعض دفعہ یہ فعل کسی بھی صلہ کے بغیر استعمال ہوا ہے یعنی یہ مذکور نہیں ہوتا کہ کس کی سفارش؟ کس کے پاس؟ کس چیزکے بارے میں؟ ہے جیسے ’’ وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَة ‘‘ (النساء:۸۵) میں ہے ایسے موقع پر سیاقِ عبارت سے مفہوم کا پتہ چلتا ہے۔ بعض دفعہ صرف ایک صلہ ہوتا ہے مثلا کس کے ہاں؟ بیان ہوتا ہے مگر کس کے لیے اور کیوں؟ وغیرہ کا جواب سیاقِ عبارت سے ملتا ہے۔
  • زیرِ مطالعہ لفظ (شفاعۃ) اس فعل کے ان (سفارش والے) معنوں کا مصدر ہے اس کا اُردو ترجمہ سب نے سفارش ہی کیا ہے البتہ بعض نے اس کی تنکیر (نکرہ ہونا) کی بناء پر ’’کوئی سفارش‘‘ کچھ سفارش، کسی قسم کی سفارش‘‘سے ترجمہ کیا ہے جس سے مفہوم میں ایک زور پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ زیادہ بہتر ترجمہ ہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ (شفع)سے فعل مجرد کے سات صیغوں کے علاوہ بعض اسماء مشتقہ اور مصادر (شافع، شفیع،شفع، شفعاء اور شفاعۃ) پچیس کے قریب مقامات پر آئے ہیں اور خود لفظ ’’شفاعۃ‘‘ مختلف صورتوں اور حالتوں میں بارہ (۱۲) جگہ آیا ہے۔

۱:۳۱:۲(۵)     [وَلَا یُؤخَذُ مِنْھَا] ابتدائی ’’وَ‘‘ عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘) اور ’’لا‘‘برائے نفی فعل (بمعنی ء’’نہ‘‘)ہے۔ ’’لا‘‘کی تکرار (’’لاتَجزِی‘‘، ’’لا یُقبل‘‘ اور ’’لایُؤْخذ‘‘میں) کی بناء پر یہاں ’’وَلَا‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ ’’اور نہ ہی‘‘ہوگا۔ اگرچہ بعض مترجمین نے اس کا خیال نہیں کیا۔ آخری ’’مِنْھَا‘‘ کا ترجمہ ابھی اوپر گزر چکا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں