اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۳۰

۲۱:۲      وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ ۚ وَ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۰﴾

۱:۲۱:۲     اللغۃ

      [وَ] ’’و‘‘ کے معانی و استعما ل پر ۱:۴:۱(۳)اور ۱:۷:۲(۱)میں بات ہو چکی ہے ۔ یہاں بھی واو عاطفہ نہیں بلکہ مستانفہ ہے ۔ یہاں سے ایک نیا مضمون شروع ہو تا ہے جس کا پچھلے جملے (کے مضمون)پر عطف نہیں ہو سکتا ۔ اردو ترجمہ ’’اَوْر‘‘سے ہی کیا جاتا ہے۔

۱:۲۱:۲(۱)     [اِذْ] عربی زبان میں یہ لفظ مختلف معانی کے لیے استعما ل ہوتا ہے۔ جس کی تفصیل یوں ہے:۔

(۱) بنیادی طور پریہ ’’ظرفیہ‘‘ہوتا ہے اور عموماًیہ ظرف زمان( وقت) کا مفہوم رکھتا ہے یعنی یہ ’’حِیْنَ‘‘کے معنی دیتا ہے۔ یہ زیادہ تر زمانہء ماضی کے لیے آتا ہے اور عموماًکسی جملہ فعلیہ کی طرف مضاف ہوتا ہے[چونکہ ظرف ہمیشہ مضاف ہو کر استعمال ہوتے ہیں (قبل ۔ بعد وغیرہ) اس لیے ظرف ہونے کی بنا پر نحوی حضرات ’’اِذْ‘‘ کو مضاف اور مابعد والے جملے کو مضاف الیہ سمجھ کر محلاًمجرور قرار دیتے ہیں]جیسے ’’ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ‘‘( التوبہ:۴۰) میں ہےـ اس (کے ظرفیہ ہوتے) وقت اس ( اذ) کا اردو ترجمہ ’’جب ، جس وقت ، جب کہ ‘‘سے کیا جاسکتا ہے۔

(۲) کبھی ظرفیت کے معنوں کے ساتھ یہ مفعول بہٖ بھی واقع ہوتا ہے یعنی اس سے پہلے کوئی ایسا فعل ہوتا ہے جس کا اسے مفعول بہ ٖکہاجاسکتا ہے ۔ اس وقت بھی اس (اِذْ) کے بعد کا جملہ عموماً فعل ماضی پر مشتمل ہوتا ہے ، یعنی اس (ما بعد جملے) کا فعل یا تو لفظاً معناً دونوں طرح ’’ماضی ‘‘ ہوتا ہے اور کبھی لفظاً مضارع مگر معناً ماضی ہوتا ہے ، جیسے’’ وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ (البقرہ:۱۲۷)میں ہے۔ اور کبھی اس (اذ)کے بعد والا جملہ اسمیہ ہوتا ہے، جیسے ’’ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ   (۷۰) اِذِ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ ‘‘المومن(غافر): ۷۱۔۷۰)[بطور مثال بیان ہونے والی آیات کے معنی وغیرہ پر اپنی جگہ بات ہو گی۔ اس سے پہلے آپ ضرورت محسوس کریں تو کسی مترجم قرآن مجید  میں سے ترجمہ دیکھ کر قاعدہ سمجھ سکتے ہیں، آیت کا حوالہ اسی ضرورت کے لیے دیا گیا ہے]اس (مفعول بہ ہونے والی) صورت میں ’’اِذ‘‘کا ترجمہ ’’اس وقت کو ‘‘ یا ’’ اس وقت کو جب‘‘ ہونا چاہیے۔ تاہم با محاورہ اردو ترجمہ اس کا بھی ’’جب کہ ، جس وقت کہ ‘‘ سے ہی کیا جاتا ہےـ  بعض دفعہ اس (اِذْ) سے پہلا فعل ( جس کا یہ مفعول بہٖ ہوتا ہے)محذوف کر دیا جاتا ہےــــ جو عموماً اذکروا (یا دکرو …. کو)یا اس کے ہم معنی کوئی فعل سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ’’اِذْ‘‘ کا زیادہ تراستعمال بطور مفعول بہٖ  ہی ہوا ہے اور قرآنی قصوں میں خاص طور پر اس کا استعمال ایک محذوف فعل کے مفعول بہٖ کے طور پر ہوا ہے جس کی ایک مثال یہی زیر ِمطالعہ آیت ہے، یعنی ’’ (اذکروااذ قال رَبُّکَ( اس وقت کو یاد کرو جب ـــ کہا تیرے رب نے۔)

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں